"ٹریفن کا مخمصہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
2 مآخذ کو بحال کرکے 1 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 15:
جب کسی ملک کی کرنسی دنیا بھر میں ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو وقتی طور پر تو اس ملک کو بڑا فائدہ ہوتا ہے مگر لمبے عرصے بعد اس کی ایکسپورٹ ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے عالمی بینکرز چاہتے ہیں کہ ایک ایسی کرنسی ہو جو ریزرو کرنسی بھی ہو مگر کسی بھی ملک کی کرنسی نہ ہو۔ یعنی ریزرو کرنسی کے فوائد تو حاصل ہوں مگر نقصانات سے بچا جا سکے۔ اس لیے ایس ڈی آر نامی ایک بین الاقوامی کرنسی تخلیق کی گئی ہے یعنی ایس ڈی آر کو کبھی کسی ملک کی کرنسی نہیں بنایا جائے گا۔ ایس ڈی آر بنا کر ٹریفن کے مخمصے کو حل کر دیا گیا ہے۔ ایس ڈی آر مستقبل کی عالمی کرنسی بنے گا۔
:"اگلا مالی بحران اتنا بڑا ہو گا کہ مرکزی بینک بھی اسے بیل آوٹ نہیں کر سکیں گے۔۔ اگلے بیل آوٹ کے لیے ایس ڈی آر کرنسی ہو گی۔۔ کیا چیز مرکزی بینکوں سے بھی بڑی ہے؟ وہ واحد چیز جو مرکزی بینکوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے وہ آئی ایم ایف ہے۔"
:The next financial crisis will be too big for the central banks to bail out....that (SDR) will be the next bailout currency...What’s bigger than the central banks? The only thing bigger than the central banks is the IMF.<ref>[{{Cite web |url=https://www.sprottmoney.com/blog/jim-rickards-there-will-be-a-war-on-gold.html |title=Jim Rickards: "There Will Be A War On Gold"] |access-date=2016-08-31 |archive-date=2017-01-13 |archive-url=https://web.archive.org/web/20170113115338/https://www.sprottmoney.com/blog/jim-rickards-there-will-be-a-war-on-gold.html |url-status=dead }}</ref>
 
== ویلتھ ایفکٹ ==
سطر 31:
بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکی ڈالر اپنے استحکام کی وجہ سے دنیا کی مقبول ترین کرنسی رہا ہے۔ ایسی کرنسی ریزرو کرنسی کہلاتی ہے کیونکہ ہر کوئی کسی ایسی غیر مستحکم کرنسی میں اپنی دولت رکھنا نہیں چاہتا جس کی قوت خرید گر سکتی ہے۔ نتیجتاً دنیا بھر کے لوگ اور حکومتیں اپنی کرنسی سے ڈالر خرید لیتی ہیں تاکہ مستقبل میں کسی نقصان سے بچ سکیں۔ اس طرح ڈالر کی مانگ اور قیمت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے امریکا کو دوسرے ممالک کا سامان نہایت کم قیمت پر مل جاتا ہے اور امریکا میں بڑی خوشحالی آ جاتی ہے۔ مگر ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے دو مسئلے جنم لیتے ہیں۔
* امریکا کا بنا ہوا سامان بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگا ہو جاتا ہے اور بِک نہیں پاتا۔ اس طرح امریکا کو تجارتی خسارہ ہونے لگتا ہے۔ امریکی سرمایہ دار دوسرے ممالک میں صنعتیں منتقل کر دیتے ہیں جس سے امریکی افرادی قوت بے روزگار ہو جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ تجارتی خسارہ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ لوگوں کا ڈالر پر اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ اب لوگ ڈالر خریدنا کم کر دیتے ہیں۔ ڈالر کی ساکھ بچانے کے لیے امریکا کو [[شرح سود]] گرانی پڑتی ہے تاکہ لوگ ڈالر میں قرض لے کر اُن دوسرے ممالک کے بونڈ خرید لیں جہاں منافع زیادہ ملتا ہے۔ اس carry trade کی وجہ سے ڈالر کی ایکسپورٹ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
* امریکا کو سامان ایکسپورٹ کرنے والے غیر ملکیوں کے ہاتھ میں جب ڈالر آ جاتے ہیں تو وہ ڈالر سے سونا خریدنا شروع کر دیتے ہیں <!-- When the excess dollars began showing up in global central banks, they began converting their dollars into gold. This lowered the value of the US dollar in relation to gold. --><ref>[http://daily_reckoning.com/the-triffin-dilemma/ This is where the Triffin Dilemma kicked in.]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref><!-- daily_reckoning.com کے درمیان سے _ ہٹا کر سرچ کریں -->۔ اس سے امریکا کا سونا کم ہو جاتا ہے اور امریکا میں زیر گردش ڈالر کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں باتیں امریکا کے لیے انتہائی ناقابل برداشت ہیں۔ ڈالر کی تعداد میں اضافے (انفلیشن) کا مطلب ہے سونے کی قیمت بڑھ جانا (یعنی ڈالر کی قیمت گر جانا) جس سے امریکی درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں اور امریکی خوشحالی کم ہونے لگتی ہے۔ جبکہ سونے کے ذخائر میں کمی کا مطلب ہے ریزرو کرنسی کی حیثیت میں کمی آنا۔ یہ سونے کے ذخائر ہی ہوتے ہیں جو کسی کرنسی کو ریزرو کرنسی بناتے ہیں۔ سونے کے ذخائر بچانے کے لیے ہی امریکا نے 1971 میں خود بریٹن اوڈز سسٹم توڑا تھا۔
 
ریزرو کرنسی کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے ڈالر کا ایکسپورٹ ہونا اور پھر واپس امریکی معیشت میں داخل نہ ہونا اتنا ضروری ہے کہ اس کے لیے ہر دھونس دھمکی استعمال کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر جنگ بھی چھیڑ دی جاتی ہے جیسے کہ [[ویتنام کی جنگ]]۔
سطر 79:
In effect, America has been buying up Europe, Asia and other regions with paper credit – U.S. Treasury IOUs that it has informed the world it has little intention of ever paying off.
* دنیا کو دوہرے معیار پر چلایا جا رہا ہے کیونکہ امریکی تجارتی خسارے کے باوجود امریکی حکومت کی مالیاتی پالیسی چلانے کے لیے زبردستی دوسرے ملکوں کو قرضے دینا امریکا کی مفت خوری کا سبب ہے۔
The world has come to operate on a double standard as the U.S. payments deficit provides a Free Lunch in the form of compulsory foreign loans to finance U.S. Government policy.<ref>[{{Cite web |url=http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf |title=امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history] |access-date=2016-05-03 |archive-date=2013-05-14 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130514131702/http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf |url-status=dead }}</ref>
</ref>
* ایس ڈی آر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے ٹریفن کا مخمصہ حل ہو جاتا ہے۔
بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ ایس ڈی آر سسٹم کیا ہے اس لیے عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ انفلیشن کی کیا وجہ ہے۔ الیکشن میں منتخب نمائندے آئی ایم ایف پر الزام لگاتے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ اور ایس ڈی آر کی یہی تو خوبی ہے۔ ٹریفن کا مخمصہ بھی حل ہو جاتا ہے، (نوٹ چھاپ کر) قرضے دینا بھی جاری رہتا ہے اور کسی پر ذمہ داری بھی نہیں آتی۔ مختصراً یہ دنیا کے امیر ترین افراد کا منصوبہ ہے۔<br/>