"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
0 مآخذ کو بحال کرکے 3 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 126:
 
== ضعیف روایات سے استدلال ==
معترضین حضرات <ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=dead }}</ref> اس بات کی طرف بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ اصول یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے "قوانین" بناتے وقت "ضعیف" روایات کا استعمال نہیں ہو سکتا، خاص طور پر جب کہ موت و قتل جیسے قوانین بنائے جا رہے ہوں۔ مگر اس کے باوجود توہین رسالت قانون کو سہارا دینے کے لیے کچھ ضعیف روایات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی مثال وہ عصماء بنتِ مروان کے واقعہ سے دیتے ہیں<ref name="banuri.edu.pk">{{Cite web |url=http://www.banuri.edu.pk/ur/node/1240 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2014-11-29 |archive-date=2014-07-12 |archive-url=https://web.archive.org/web/20140712121746/http://banuri.edu.pk/ur/node/1240 |url-status=dead }}</ref>:
{{اقتباس|عصما بنت مروان رسول ا کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی اکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی ، جو کہ نابینا (اندھے) تھے، ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول ا کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول ا اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ ا غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیرنے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی۔پھر نماز فجر محمد{{صہ}} کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم {{صہ}} نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ{{صہ}} پر قربان ہوں۔}}
معترضین حضرات کی تنقید یہ ہے کہ''' یہ صحابی نابینا تھے، مگر اس کے باوجود اس عورت کے گھر تک پھر اکیلے کیسے پہنچ گئے؟ پھر اکیلے اندھیرے میں اس انجان گھر میں اس عورت کو اندھیرے میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اس پورے وقت میں کسی گھر والے کی آنکھ نہیں کھلتی۔ پھر ایک عورت ملتی ہے اور ٹٹولنے پر پتا چلتا ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پھر اس دودھ پیتے بچے کو زبردستی الگ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی ماں جاگتی ہے اور نہ کوئی اور گھر والا (اگر کسی دودھ پیتے بچے کو الگ کیا جائے تو وہ فورا رونا شروع کر دیتا ہے)۔اور پھر یہ صحابی تقریبا ًاندھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آدھی رات کا گھپ اندھیرا بھی تھا۔ تو پھر انہیں کیسے یقین ہوا جس عورت کو وہ قتل کرنے جا رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ عصماء بنت مروان ہی ہے؟'''