"کاغذی کرنسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
39 مآخذ کو بحال کرکے 16 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
9 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 801:
 
مشہور ماہر معاشیات Ludwig von Mises (1881–1973) اپنی تصنیف Beware the Alchemists (دولت بنانے والوں سے ہوشیار)میں لکھتے ہیں کہ حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ جسے چاہے گھوڑا کہے۔ وہ چوزے کو بھی گھوڑا کہہ سکتی ہے۔ اس وقت تو لوگ حکومت کو پاگل یا کرپٹ سمجھیں گے۔ لیکن تین صدیوں میں حکومتیں کاغذ کے ٹکڑے کو کرنسی باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہی مہنگائی کی اصل وجہ ہے۔<!-- If a judge were to say that whatever the government calls a horse is whatever the government calls a horse, and that the government has the right to call a chicken a horse, everybody would consider him either corrupt or insane. Yet in the course of a very long evolution, the government has converted the situation that the government must settle disputes concerning the meaning of "money" as referred to in contracts, into another situation. Over centuries many governments and many theories of law have brought about the doctrine that money, one side of most exchange agreements, is whatever the government calls money. The governments are pretending to have the right to do what this doctrine tells them, that is to declare anything, even a piece of paper, "money." And this is the root of the monetary problem.
--> <ref>[{{Cite web |url=http://bmgbullionbars.com/the-federal-reserves-centennial-birthday-the-hundred-years-war-against-gold-and-economic-common-sense/ |title=سونے اور اکنومک کومن سینس کے خلاف سو سالہ جنگ/] |access-date=2014-11-02 |archive-date=2015-03-21 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150321040506/http://bmgbullionbars.com/the-federal-reserves-centennial-birthday-the-hundred-years-war-against-gold-and-economic-common-sense/ |url-status=dead }}</ref>
 
{| class="wikitable"
سطر 844:
* مخفی [[انفلیشن ٹیکس]] کی وجہ سے بچت اپنی قوت خرید کھو دیتی ہے
* دولت تخلیق ہونے سے عوام پر قرض چڑھتا ہے جس سے
* آنے والی نسل پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے<ref>[{{Cite web |url=http://www.goldcore.com/us/gold-blog/u-s-state-finances-lack-truth-and-integrity-volcker-warns |title=پال واکر کا بیان] |access-date=2015-06-11 |archive-date=2015-06-12 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150612011330/http://www.goldcore.com/us/gold-blog/u-s-state-finances-lack-truth-and-integrity-volcker-warns/ |url-status=dead }}</ref>
|}
 
سطر 1,903:
جرمنی میں جب 1933 میں [[نازی]] پارٹی الیکشن جیت کر حکومت میں آئی تو [[جرمنی]] کی [[معیشت]] بالکل تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ 60 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ [[پہلی جنگ عظیم]] میں شکست کے بعد جرمنی کو بھاری [[تاوان جنگ]] ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ [[بیرونی سرمائیہ کاری]] کے امکانات بالکل صفر تھے۔ جرمنی کی ساری [[نوآبادی|نو آبادیاں]] اس سے چھین لی گئیں تھیں۔ صرف چند سالوں میں سوا دو لاکھ افراد [[خودکشی]] کر چکے تھے۔ صورت حال کچھ ایسی تھی کہ ہر جرمن فرد پر 6000 مارک کا قرضہ تھا جبکہ اس کی جیب میں 14 مارک بھی نہیں تھے۔<ref>[http://www.ihr.org/jhr/v12/v12p299_Degrelle.html INSTITUTE FOR HISTORICAL REVIEW]</ref> لیکن صرف چار سال میں [[ہٹلر]] نے جرمنی کو دوبارہ [[یورپ]] کی مضبوط ترین معیشت بنا دیا۔ اس وقت تک جرمنی نے بڑے پیمانے پر اسلحہ سازی بھی شروع نہیں کی تھی۔ 1935 سے ہٹلر نے پرائیوٹ بینکوں سے قرض لینے کی بجائے حکومت کی جانب سے خود کرنسی چھاپنی شروع کر دی جیسا کہ کمیونسٹ حکومتیں کرتی ہیں۔ ہٹلر کی یہ کرنسی MEFO bill کہلاتی تھی۔ 1945 تک جرمنی یہ کرنسی چھاپتا رہا جس کی پشت پر نہ کوئی [[سونا]] تھا نہ کوئی [[قرض]]۔ جس وقت [[امریکا]] اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ بے روزگار تھے، جرمنی میں بے روزگاری ختم ہو چکی تھی۔ معیشت مضبوط ہو چکی تھی۔ عالمی بینکاروں کی طرف سے لگائی جانے والی معاشی پابندیوں اور [[بائیکاٹ]] کے باوجود جرمنی [[بارٹر سسٹم]] کی مدد سے دوسرے ممالک سے تجارت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔<br/>
ایک طرف [[جرمنی]] میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت نے پرائیوٹ بینکوں سے چھین لیا تھا دوسری طرف [[جاپان]] میں بھی کرنسی حکومت چھاپ رہی تھی۔ اور ان دونوں ممالک میں ترقی کی رفتار نہایت تیز تھی<!-- During the 1931–41 period manufacturing output and industrial production increased by 140% and 136% respectively, while national income and Gross National Product (GNP) were up by 241% and 259% respectively. --> ۔<ref>[http://www.counter-currents.com/2011/08/breaking-the-bondage-of-interesta-right-answer-to-usury-part-4/ “Hidden Hand” behind wars and revolutions]</ref> یہ صورت حال مرکزی بینکاروں کی برداشت سے باہر تھی۔ اگر دوسرے ممالک کے عوام بھی حکومتی کرنسی چھاپنے کا مطالبہ کر دیتے تو بینکاروں کا صدیوں پرانا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ اس لیے جرمنی اور جاپان کے خلاف [[دوسری جنگ عظیم]] شروع کی گئی۔<ref>[http://www.webofdebt.com/articles/bankrupt-germany.php ہٹلر کا مالیاتی نظام]</ref> <!-- Hitler not only engaged in barter trade which meant no discount profits for bankers arranging bills of Exchange, but he even went so far as to declare that a country’s real wealth consisted in its ability to produce goods; nor, when men and material were available, would he ever allow lack of money to be an obstacle in the way of any project which he considered to be in his country’s interests. This was rank heresy in the eyes of the financiers of Britain and America, a heresy which, if allowed to spread, would blow the gaff on the whole financial racket.” --><ref name="A war of financiers and fools"/><br/>
1945 میں [[دوسری جنگ عظیم|جنگ عظیم دوم]] میں [[جاپان]] کو ایٹمی ہتھیاروں سے شکست دینے کے بعد وہاں سب سے پہلا کام کاغذی کرنسی کی تخلیق کے بلا سودی بینکاری نظام کو "درست" کیا گیا تھا اور امریکا برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی طرح پرائیوٹ سنٹرل بینک قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ سے پہلے جاپان کا سینٹرل بینک حکومتی ملکیت میں تھا اور نوٹ چھپنے پر حکومت کو نہ قرض لینا پڑتا تھا نہ سود دینا پڑتا تھا۔<ref>{{cite web |url=http://www.veteranstoday.com/2011/06/26/was-world-war-ii-fought-to-make-the-world-safe-for-usury/ |title=دوسری جنگ عظیم تو بینکاروں کی حفاظت کے لیے لڑی گئی تھی |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=veteranstoday |publisher= |accessdate= |archive-date=2013-05-27 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130527220024/http://www.veteranstoday.com/2011/06/26/was-world-war-ii-fought-to-make-the-world-safe-for-usury/ |url-status=dead }}</ref> 1940 میں ایک ڈالر 4.27 جاپانی ین کے برابر تھا۔ 1950 میں ایک ڈالر 361.1 ین کے برابر ہو چکا تھا۔<ref>[[فہرست تاریخی شرح مبادلہ بمقابلہ امریکی ڈالر|Tables of historical exchange rates to the United States dollar]]</ref>
 
آج [[جاپان]] پر قرضے 23٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو [[خام ملکی پیداوار|جی ڈی پی]] کا 245 فیصد ہیں۔<ref>{{cite news |title=Mr-Yen-cautions-on-Japans-unsafe-debt-trajectory |author= |url=http://www.telegraph.co.uk/finance/financialcrisis/9955287/Mr-Yen-cautions-on-Japans-unsafe-debt-trajectory.html |newspaper=ٹیکیگراف |date= |accessdate=}}</ref><br/>
سطر 2,205:
[[فائل:St. Louis Adjusted Monetary Base for 100 years.png|تصغیر|400px|فیڈرل ریزرو کی سو سالہ 'بیلنس شیٹ']]
یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے [[فیڈرل ریزرو|وفاقی ذخائر]] کی [[شرح سود]] (Federal Fund Rate) میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو [[ٹیلر کا اصول|ٹیلر کے اصول]] کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا میں5000 ارب ڈالر اس عرصہ میں [[مقداریہ سہل|مقداری تسہیل]] کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیے جا سکتے تھے<ref>{{cite web |url=http://www.theblaze.com/stories/is-gold-money-ron-paul-grills-bernanke-on-fed-policies/ |title=Bernanke-on-fed-policies |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=theblaze |publisher= |accessdate=}}
اور اس طرح حاصل ہونے والا معیشت کو بڑھاوا زیادہ نمایاں بھی ہوتا۔</ref>۔ 85 ارب ڈالر ماہانہ کی رقم سے دو کروڑ لوگوں کو سالانہ 50٫000 ڈالرتنخواہ دے کر کوئی ملازمت دی جا سکتی ہے اور بے روزگاری بڑی آسانی سے ختم کی جا سکتی ہے مگر امریکا میں بے روزگاری میں پھر بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رقم سے امریکا کا ہر [[طالب علم]] چار سال یونیورسٹی میں پڑھ سکتا ہے یا دنیا سے بھوک 30 دفعہ ختم کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ ساری رقم عوام تک نہیں پہنچ رہی بلکہ بینکاروں کو مزید امیر بنا رہی ہے۔<ref>[http://www.24hgold.com/english/news-gold-silver-gold-price-is-going-higher-whether-or-not-fed-tapers.aspx?article=4493362478G10020&redirect=false&contributor=Jason+Hamlin&mk=1 امریکا میں بے روزگاری 23 فیصد]</ref><ref>[{{Cite web |url=http://www.washingtonsblog.com/2013/06/81-5-of-money-created-through-quantitative-easing-is-sitting-there-gathering-dust-instead-of-helping-the-economy.html |title=تخلیق شدہ ڈالروں پر دھول جم رہی ہے] |access-date=2014-01-05 |archive-date=2013-12-23 |archive-url=https://web.archive.org/web/20131223195502/http://www.washingtonsblog.com/2013/06/81-5-of-money-created-through-quantitative-easing-is-sitting-there-gathering-dust-instead-of-helping-the-economy.html |url-status=dead }}</ref>
مرکزی بینکوں کا تخلیق کردہ یہ سرمائیہ صرف [[اسٹاک مارکیٹ]] میں تیزی لا رہا ہے۔<ref>[http://www.dollarsandsense.org/archives/2014/0514orr.html اسٹاک مارکیٹ یا کیسینو؟]</ref>
:"Central banks are ruling markets to a degree this generation has not seen."<ref>[http://ritholtz.com/2012/01/living-in-a-qe-world/ Living In A QE World]</ref><br>
سطر 2,544:
* قرض لینے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر وقت کے ساتھ گر رہی ہو۔(دیکھیے [[ایسگناٹ]]) اور بچت کرنے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر بڑھ رہی ہو۔
* جب کوئی قوم ادائیگی کے وعدے کو ادائیگی سمجھنے لگے تو اُسے کوئی بھی زوال سے نہیں بچا سکتا۔ ادائیگی کا وعدہ ہارڈ کرنسی کا متبادل (money substitudes) ہوتا ہے جیسے کاغذی کرنسی، چیک، ڈرافٹ، پے آرڈر، بل آف ایکسچینج، [[بٹ کوئن|بٹ کوائن]] وغیرہ۔ [[سلطنت عثمانیہ]] اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی۔<!-- If taxation is the expropriation of wealth by force, then inflation is its expropriation by fraud. -->
* کرنسی قابل تخلیق نہیں ہونی چاہیے جیسے کہ سونا چاندی انسان کے لیے قابل تخلیق نہیں ہوتا۔ جب کرنسی قابل تخلیق ہوتی ہے (جیسے کہ کاغذی کرنسی یا الیکٹرونک کرنسی e-money ہوتی ہے) تو تخلیق کنندہ نہایت امیر اور طاقتور ہو جاتا ہے<!-- Print up money (or its digital substitutes and surrogates in more modern times) and you can have access to all the hard work of others who have invested in manufacturing and bringing to market all the goods and services you desire without having to undertake the reciprocal effort and work to make and trade an actual good or service to earn the money so as to honestly buy what you want from them. Some are so impolite as to refer to such monetary mischief as “fraud” and “theft.” --><ref>[http://www.zerohedge.com/news/2015-10-07/time-end-monetary-central-planning Money Creation as a Tool of Plunder]</ref> اور نہ صرف حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے بلکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے (مثلاً جنگ<ref>[{{Cite web |url=http://www.washingtonsblog.com/2015/02/america-war-93-time-222-239-years-since-1776.html |title=America is the number 1 threat to peace.] |access-date=2016-08-07 |archive-date=2016-08-08 |archive-url=https://web.archive.org/web/20160808065847/http://www.washingtonsblog.com/2015/02/america-war-93-time-222-239-years-since-1776.html |url-status=dead }}</ref>)۔ قابل تخلیق کرنسی غریبوں کی دولت کو کرنسی تخلیق کرنے والے امیروں تک خاموشی سے منتقل کرنے کا موثر ترین حربہ ہے۔<ref>{{cite web |url=http://mpra.ub.uni-muenchen.de/27719/1/MPRA_paper_27719.pdf |title=غربت کی اصل وجہ |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=mpra.ub.uni-muenchen.de |publisher= |accessdate=}}</ref>
:A fiat monetary system allows power and influence to fall into the hands of those who control the creation of new money, and to those who get to use the money or credit early in its circulation. The insidious and eventual cost falls on unidentified victims who are usually oblivious to the cause of their plight. This system of legalized plunder (though not constitutional) allows one group to benefit at the expense of another. An actual transfer of wealth goes from the poor and the middle class to those in privileged financial positions. Rep. Ron Paul, MD<ref>[http://www.lewrockwell.com/1970/01/ron-paul/paper-money-and-tyranny/ Paper money and tyranny by Rep. Ron Paul, MD]</ref>
* جب تجارتی توازن میں خسارہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر گرتی ہے۔ جب فوجی فتوحات میں اضافہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر بڑھتی ہے۔ چونکہ ریزرو کرنسی جاری کرنے والے ملک کو لازماً تجارتی خسارہ ہوتا ہے اس لیے اپنی کرنسی کی قدر بچانے کے لیے اُسے جنگ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ (دیکھیے [[ٹریفن کا مخمصہ]])<!-- “America exists today to make war. How else do we interpret 19 straight years of war and no end in sight? It’s part of who we are. It’s part of what the American Empire is. We are going to lie, cheat and steal, as Pompeo is doing right now, as Trump is doing right now, as Esper is doing right now … and a host of other members of my political party, the Republicans, are doing right now. We are going to lie, cheat and steal to do whatever it is we have to do to continue this war complex. That’s the truth of it. And that’s the agony of it.”
سطر 2,683:
* [http://www.bibliotecapleyades.net/sociopolitica/esp_sociopol_cooper2a.htm کاغذی کرنسی: خاموش جنگ کا بے آواز ہتھیار] ( انگریزی میں )
* [http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history]{{wayback|url=http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf |date=20130514131702 }} ( انگریزی میں )
* [http://www.themoneymasters.com/wp-content/uploads/2009/12/ModernMoneyMechanics2.pdf Modern Money Mechanics] {{wayback|url=http://www.themoneymasters.com/wp-content/uploads/2009/12/ModernMoneyMechanics2.pdf |date=20111020165538 }} ( انگریزی میں )
* [http://www.fdic.gov/bank/individual/failed/banklist.html چار سو بینکوں کی فہرست جو ستمبر 2000 کے بعد دیوالیہ ہوئے]
* [http://www.sbp.org.pk/m_policy/a_imf/2009/IntlMonetaryFund-16-Mar-09.pdf اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا آئی-ایم-ایف سے معاہدہ۔ 2009۔ ( انگریزی میں )]