"ہندوستان میں شیعیت" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم) |
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8 |
||
سطر 71:
تفصیلی مضمون کے لیے ملاحظہ کریں: [[لکھنؤ کی عزاداری]]
1906ء میں لکھنؤ کے عزاداری کے جلوسوں مقابلے میں دیوبندی علما کی طرف سے مدح صحابہ کے نام سے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا<ref>https://www.tandfonline.com/doi/abs/10.1080/14736480701493088</ref>۔ ان جلوسوں کو نکالا تو صحابہ کے نام پر جاتا لیکن ان میں کربلا کے واقعے پر گفتگو اور نعرے بازی ہوا کرتی جس میں بنی امیہ کی وکالت کی جاتی۔ عاشورا کے دن یہ سب کرنے سے شیعوں میں اشتعال پھیل گیا۔ انگریزحکومت نے فرقہ وارانہ فساد کے خطرے کے پیش نظر ان جلوسوں پر پابندی لگا دی۔ لکھنؤ کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شہر اس وقت ہندوستان میں شیعوں کا ثقافتی مرکز تھا۔ لکھنؤ میں اس اشتعال کے بعد فرقہ وارانہ لٹریچر چھپنے لگا، جو لکھنؤ تک محدود نہ رہا بلکہ وادی سندھ میں بھی آیا۔ 1920ء میں مرزا حیرت دہلوی نے "'''کتاب شہادت'''" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت علی و حسنین کی شان میں گستاخی اور ملوکیت بنی امیہ کی وکالت کی گئی تھی<ref>مرزا حیرت دہلوی، "کتاب شہادت"، کرزن پریس دہلی، (1920)۔</ref>۔ لکھنؤ شہر میں تو انگریز حکومت کے حسن انتظام اور قانون کے مساوی نفاذ نے قتل و غارت تک نوبت نہیں آنے دی، لیکن پنجاب اور پختون خواہ کے بعض علاقوں میں محرم کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1931ء میں دیوبندی عالم مولانا عبد الشکور لکھنؤی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح "صحابہ" کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب 1938ء میں اس جلوس کے رد عمل کے طور پر لکھنؤ کے شیعہ حضرات نے بنی امیہ پر تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی آزادی کے تاریخی لمحات قریب آ چکے تھے اور یہاں مسلمان آپس میں لڑپڑے تھے۔ اکتوبر 1939ءکومولانا [[ابو الکلام آزاد]] کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے<ref name=":0">Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔</ref> البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی پھر بھی صحابہ کے نام پر فتنہ انگیزی سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ مولانا عبد الشکور 1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو گئے<ref name=":1">
=== تحریک آزادی اور فرقہ وارانہ ذہنیت ===
|