"تحریک طالبان پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← جنھوں؛ تزئینی تبدیلیاں
4 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 60:
 
=== پاکستان کا رخ بدلنے کی کوشش ===
جنگ عظیم دوم  کی وجہ سے کمزور ہونے والے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے  اور   مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں  ہندوستان کے شمال مغرب  میں ایک مسلمان ریاست کے ممکنہ قیام کی آہٹ پا کر علما دیوبند میں سے کچھ نے اس وجہ سے قیام پاکستان کی مخالفت کی کہ اس تحریک کی اعلی تعلیم یافتہ قیادت اور جدید ریاست کے قیام سے اختلاف رکھتے تھے۔ البتہ کچھ دیگر سخت گیر علما نے قیام پاکستان کو ناگزیر سمجھتے ہوئے وادی سندھ  کی طرف ہجرت  شروع کی اور دوبارہ سے   سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی  پسماندہ   ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں<ref>"قائد اعظم لکھنؤ تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حکمت سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لیے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور مسیحی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں؟ جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے"۔ عبید الرحمن، ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘، صفحہ 49، طبع کراچی</ref>۔ 26  اگست 1941ء کو لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔مولانا مودودی اگرچہ روایتی فرقہ پرست عالم  نہیں تھے مگر اپنی جماعت اسلامی کے پیغام کو قبول نہ کرنے والوں کو نام نہاد مسلمان سمجھتے تھے۔ اس طرح جماعت اسلامی بھی ایک قسم کا فرقہ بن گئی۔  البتہ  جماعت اسلامی محدود تعداد مگر  منظم  ارکان  کا حامل   فرقہ ہے، جس کو [[انگریزی زبان]] میں کلٹ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ 1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں تنظیم اہل سنت  کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 26اکتوبر 1946ءکو مولانا [[شبیر احمد]] عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام کے نام سے تیسری دیوبندی جماعت قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازی [[سیاسی جماعت]] تھی۔ جب قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا<ref>"میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی" مولانا شبیر احمد عثمانی، 1 ستمبر 1947ء</ref>، یوں ایک [[سرد جنگ]] شروع ہو گئی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے<ref>[{{Cite web |url=http://www.farooqia.com/ur/lib/1434/11/p40.php |title=جامعہ فاروقیہ کراچی ۔۔ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->] |access-date=2018-06-25 |archive-date=2017-12-13 |archive-url=https://web.archive.org/web/20171213093901/http://www.farooqia.com/ur/lib/1434/11/p40.php |url-status=dead }}</ref>- لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی<ref>آپ کا پہلا جنازہ گورنر ہاؤس میں شیعہ طریقے پر ہوا، آپ کیجائداد بھی محترمہ فاطمہ جناح کو شیعہ طریقے پر منتقل کی گئی، تفصیل اس کتاب میں: Khalid Ahmed, "Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East"، Oxford University Press, 2011.</ref> مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا<ref>"فتاویٰ مفتی محمود" میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو غلطی قرار دیا گیا ہے۔ مفتی محمود ستر کی دہائی میں جمیعت علمائے اسلام کے قائد اور مولانا فضل الرحمن کے والد تھے۔
 
فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67</ref>۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انہوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا<ref>قائد اعظم کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”قائد اعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائد اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“</ref>۔ دوسری طرف دیوبندی جماعت " تنظیم اہلسنت" سے تعلق رکھنے والے علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا<ref>[http://zahidrashdi.org/1614 مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ | مولانا زاہد الراشدی<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد  ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے<ref name=":1">Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔</ref>۔