"ہم جنس پرستی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← جنھوں؛ تزئینی تبدیلیاں
12 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 110:
سن 1800ء کے وسط کے دوران یورپ میں عرب مسافروں کی ایک مٹھی بھر رقم تاریخ ہے، ان میں سے دو مسافر رفاح الطاہتاوی اور محمد ازسفر اپنی حیرانیت ظاہر کرتے ہیں کہ کبھی کبھار فرانسسیسی اپنے سماجی معیار اور اخلاقیات کو برقرار رکھنے کے لیے نوجوان لڑکے سے پیار کے بارے میں دانستہً غلط ترجمہ کرتے ہیں اور اس کی بجائے ایک نوجوان خاتون کا حوالہ دے دیتے ہیں۔ <ref>El-Rouayheb, Khaled (2005)۔ ''Before Homosexuality in the Arab-Islamic World, 1500–1800''۔ The University of Chicago Press. p. 2. <nowiki>ISBN 0-226-72988-5</nowiki>۔</ref>
 
ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو ہم جنس پرستوں کے لیے سب سے زیادہ روادار ملک<ref>[http://www.independent.co.uk/life-style/love-sex/taboo-tolerance/the-five-most-improved-places-for-gay-tolerance-932635.html The five most improved places for gay tolerance"] {{wayback|url=http://www.independent.co.uk/life-style/love-sex/taboo-tolerance/the-five-most-improved-places-for-gay-tolerance-932635.html |date=20170611133449 }}۔ ''The Independent''۔ London. 17 ستمبر 2008. Retrieved 29 مئی 2009. <q>Israel is the only Middle-Eastern country to support gay rights legislation, and the country attracts gay people from Palestine and Lebanon</q></ref> تصور کرنے کے ساتھ تل ادیب کو 'مشرق وسطیٰ کا گے دار الحکومت' ہونے کا نام دیا گیا ہے،<ref>James Kirchick. "Was Arafat Gay?"۔ ''Out''۔</ref> اور دنیا میں سب سے زیادہ گے دوستانہ ملک سمجھا جاتا ہے۔<ref>The world's most gay-friendly places"۔ ''Calgary Herald''۔ 29 جون 2011</ref> تل ادیب میں ہم جنس پرستی کی حمایت میں سالانہ پرائڈ پریڈ ہوتی ہے۔<ref>Grant, Anthony (2 جولائی 2010)۔ [http://tmagazine.blogs.nytimes.com/2010/07/02/dispatch-gay-tel-aviv/ "Gay Tel Aviv"]۔ ''نیو یارک ٹائمز''۔</ref>
 
دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں بہت سی حکومتیں ہم جنس پرستی کو نظر انداز کرتی ہیں، اس کی موجودگی کا انکار کرتی ہیں یا اس عمل کو مجرمانہ قرار دیتی ہیں۔ ہم جنس پرستی لگ بھگ سب ہی مسلم ممالک میں غیر قانونی ہے۔<ref>Steven Eke (28 جولائی 2005)۔ [http://news.bbc.co.uk/1/hi/world/middle_east/4725959.stm "Iran 'must stop youth executions'"]۔ ''BBC News''۔</ref> کئی مسلم اقوام ہم جنس مباشرت پہ سرکاری طور پر موت کی سزا سناتی ہیں: سعودی عرب، ایران، ماریطانیہ، شمالی نائیجیریا، سوڈان اور یمن۔<ref>[https://web.archive.org/web/20091029185853/http://www.ilga.org/news_results.asp?LanguageID=1&FileID=1111&ZoneID=7&FileCategory=50 7 countries still put people to death for same-sex acts"]۔ ILGA. Archived from [http://www.ilga.org/news_results.asp?LanguageID=1&FileID=1111&ZoneID=7&FileCategory=50 the original] on 29 اکتوبر 2009. Retrieved 24 اگست 2010</ref> 2007ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں ایرانی صدر محمود احمدینجاد اپنے خطاب کے دوران میں دعوے سے کہتا ہے کہ ایران میں کوئی گے لوگ نہیں ہیں۔ تاہم، ممکنہ وجہ یہ ہے کہ وہ سرکاری منطوری یا اپنے خاندان کی تردید کے ڈر سے اپنی جنسیت کو راز رکھتے ہیں۔<ref>Fathi, Nazila (30 ستمبر 2007)۔ [https://www.nytimes.com/2007/09/30/world/middleeast/30gays.html?_r=1&hp&oref=slogin "Despite Denials, Gays Insist They Exist, if Quietly, in Iran"]۔ نیو یارک ٹائمز۔ Retrieved 1 اکتوبر 2007.</ref>