"اہل حدیث" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
12 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
13 مآخذ کو بحال کرکے 1 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
سطر 17:
| معالم =
| تقارب =}}
'''اہل الحدیث'''٬ جنہیں اصحاب الحدیث بھی کہا جاتا ہے، دوسری اور تیسری صدی ہجری (آٹھویں اور نویں صدی عیسوی) میں حدیث کے علما کی تحریک کے دوران منظر عام پر آئے۔ [[اہل الرائے]] اور [[اہل القرآن]] کے برخلاف اس تفرقے میں [[حدیث|احادیث]]{{زیر}} نبوی{{ص}} کی اسناد پر زور دیا جاتا ہے یعنی اہل الرائے کی طرح [[تقلید]] پر قائم نہیں ہوتے مگر اہل القرآن کی طرح حدیث کو نظر انداز بھی نہیں کرتے<ref name=OIS>Oxford Islamic studies online [http://www.oxfordislamicstudies.com/article/opr/t125/e72 آن لائن مضمون]</ref>۔ [[اہل حدیث]] کا یہ عقیدہ ہے کہ [[قرآن]] کے بعد حدیث کو اپنی [[زندگی]] کا مشعل راہ بنایا جائے اگرکسی معاملہ میں قرآن و حدیث سے مسئلہ کی وضاحت نہ ہو تو [[اجتہاد|مجتہدین]]، کے اجتہادات کو دیکھا جائے جس کا اجتہاد، قرآن اور حدیث کے زیادہ نزدیک ہے اسے لے لیا جائے جو نا موافق ہو اسے رد کر دیا جائے۔ اہل حدیث کے نزدیک [[خبر احاد]] عقائد، [[احکام]] اور [[مسائل (اسلام)|مسائل]] میں حجت ہے جبکہ حدیث کی متابعت (یعنی اطاعت) [[قرآن]] کی [[آیات]] کے اتباع کے برابر ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی [[سورت]] [[النجم]] کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے : {{جسامتعر|120%|وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى}} (ترجمہ: اور نہیں بولتا ہے وہ اپنی خواہش{{زیر}} نفس سے، نہیں ہے یہ کلام مگر ایک وحی جو نازل کی جا رہی ہے۔ قرآن [[سورہ النجم]] آیت 3 تا 4)<ref name="najam">آسان قرآن نامی ایک [http://www.asanquran.com/Interface/Forms/Quran.aspx موقع آن لائن] {{wayback|url=http://www.asanquran.com/Interface/Forms/Quran.aspx |date=20130115023431 }}</ref>۔ آج کل [[اہل حدیث (جنوبی ایشیائی تحریک)|ہندوستان اور پاکستان میں اہل حدیث]] سے مراد اس گروہ کی جاتی ہے کہ جو [[حنبلی]] سے قریب ہیں لیکن کسی ایک امام کی پیروی کا دعوی{{ا}} نہیں کرتے۔
 
== اہل حدیث سے مراد ==
سطر 82:
اس اصطلاح یا باالفاظ دیگر اس گروہ کی شکل آٹھویں صدی عیسوی کے اواخر سے ظہور پانے لگی تھی؛ [[744ء]] میں [[خلیفہ]] [[یزید ابن الولید]] کی موت پر متعدد علما کے خیال میں امت کے زوال کا آغاز ہو رہا تھا اور ان کے نزدیک اس کی وجہ مختلف سطحوں پر قرآن کی مختلف توجیہات (مختلف رائے) پیش کرنے میں تھی۔ اس مقام سے وہ علما جو گو احادیث کو مقدم رکھتے تھے اور اصحاب حدیث تھے مگر کسی گروہ کی شکل میں نا تھے، ان علما سے جدا ہونے لگے جو قیاس یا رائے کا استعمال کرنے کے حق میں تھے، انہیں اہل الرائے یا اصحاب رائے بھی کہا جاتا ہے<ref name="enofislam">Encyclopedia of Islam and the Muslim World: Richard C. Martin; ISBN 0-02-865603-2</ref>۔
=== صحابۂ اکرام کا دور ===
مذکورہ بالا تاریخی مقام محض ایک قسم کا نشان ہے جہاں سے اہل حدیث واضح ہو کر نظر آنا شروع ہوئے لیکن چوتھے خلیفہ حضرت [[علی]]{{رض}} اور [[امیر معاویہ]] کے مابین [[جنگ صفین]] پر معاہدے کے بعد مسلمان جو اب تک دو بڑے گروہوں میں بٹے ہوئے تھے (ایک حضرت علی{{رض}} کی جانب اور ایک امیر معاویہ کی جانب) اب تین گروہوں میں دکھائی دینے لگے ؛ اول [[شیعہ]] دوم [[خارجی]] اور سوم باقی تمام (جنہیں سمجھنے میں آسانی کی خاطر سنی بھی کہا جاسکتا ہے)۔<ref>تاریخ التشریح الاسلامی؛ محمد الخضری: قاہرہ 1934</ref> یہی تیسرا گروہ ہے جس کی دو بڑے گروہوں میں تقسیم کا ذکر اس قطعے کی ابتدا میں ہوا۔ یہ لوگ حضرت محمد{{ص}} کی سنت پر زور دیتے تھے اور حدیث کی عمل داری کے حق میں ہونے کے ساتھ ساتھ اولین صحابہ اکرام اور ابتدائی مسلم امہ (اسلاف) کی راست داری پر یقین رکھتے تھے۔<ref>Religion and Politics under the Early ‘Abbāsids by Qasim Zaman: ISBN 90-04-10678-2</ref> صحابۂ اکرام کا دور ھجری سالنامے کے لحاظ سے 100 سال (لگ بھگ [[720ء]]) تک بتایا جاتا ہے جب آخری صحابی [[عامر بن واثلۃ|عامر بن واثلۃ بن عبداللہ (ابوطفیل)]]{{رض}} کا انتقال ہوا۔<ref>آخری صحابی سے متعلق ایک عربی مضمون [http://www.hadith.net/persian/knowledge/raviyan%20moshtarek/1/155.htm موقع آن لائن]{{مردہ ربط|date=December 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref>
=== تابعین کا دور ===
اس کے بعد فتاوی{{ا}} کے اجرا کا [[تابعین]] کا دور آتا ہے اور ان میں امت کے وہ لوگ شامل تھے کہ جو صحابۂ اکرام جیسے فقہا کے ساتھ رہ چکے تھے ؛ ان میں [[حضرت علی ابن الحسین|زین العابدین]]{{رض}}، [[ابو عبد اللہ نافع]]{{رض}} (مولی، [[عبداللہ بن عمر|عبد اللہ بن عمر ابن الخطاب]]{{رض}})، [[عکرمہ مولی ابن عباس|عکرمہ]]{{رض}} (مولی [[حضرت عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]{{رض}})، [[یحیی بن ابی کثیر]]{{رض}}، [[سعد بن المسیب]]{{رض}}، [[عطا بن ابی رباح]]{{رض}} (وفات: [[734ء]])، [[محمد ابن سیرین]]{{رض}} (وفات: [[729ء]]) اور [[ابن شہاب الزھری]]{{رض}} (وفات: [[742ء]]) جیسے علما کے نام آتے ہیں۔ یہ تابعین فتاوی{{ا}} کے اجرا کے سلسلے میں سیرت{{ص}} اور صحابہ{{رض}} کی روش سے نہیں ہٹتے تھے اور گو کہ ان کے فتاوی{{ا}} میں فرق نہیں پایا جاتا مگر [[قیاس]] کے استعمال کی جھلک اس دور سے واضح ہونے لگتی ہے۔<ref>[[الاصابۃ]] جلد چہارم ؛ [[حافظ ابن حجر عسقلانی|ابن حجر عسقلانی]]</ref> اصحاب حدیث کا تذکرہ کرتے ہوئے، {{جسامتعر|120%|[[اہل سنت|أهل السنة]]}} کا لفظ پہلی بار [[محمد ابن سیرین]] نے استعمال کیا، ان کے الفاظ یوں بیان ہوئے ہیں