"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
5 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
سطر 75:
== حضرت ابو بکر نے توہین اللہ اور توہین رسالت کرنے والے کو قتل نہیں کیا ==
 
معترضین حضرات<ref name="web.archive.org">https://web.archive.org/web/20141202124631/http://www.alsharia.org/mujalla/2011/jun/tauheen-risalat-aitrazaat-ammar</ref> کی اگلی دلیل یہ ہے کہ ابن کثیر الدمشقی نے اپنی تفسیر میں سورۃ آل عمران کی آیت 181 کی تفسیر میں یہ واقعہ نقل کیا ہے<ref>{{Cite web |url=http://www.islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Imam+Ibn+Kaseer+%28Hafiz+Imaduddin+Abulfida%29&surah=Al-i%27Imran&langid=39&transid=93&surahid=3 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2014-12-02 |archive-date=2012-10-31 |archive-url=https://web.archive.org/web/20121031002815/http://islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Imam+Ibn+Kaseer+%28Hafiz+Imaduddin+Abulfida%29&surah=Al-i%27Imran&langid=39&transid=93&surahid=3 |url-status=dead }}</ref>:
{{اقتباس|حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اور وہ اسے زیادہ در زیادہ کر کے دے تو یہود کہنے لگے کہ اے نبی تمہارا رب فقیر ہو گیا ہے اور اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے اس پر یہ آیت (لقد سمع اللہ) الخ، نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ یہودیوں کے مدرسے میں گئے یہاں کا بڑا معلم فخاص تھا اور اس کے ماتحت ایک بہت بڑا عالم اشیع تھا لوگوں کا مجمع تھا اور وہ ان سے مذہبی باتیں سن رہے تھے آپ نے فرمایا فخاص اللہ سے ڈر اور مسلمان ہو جا اللہ کی قسم تجھے خوب معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے سچے رسول ہیں وہ اس کے پاس سے حق لے کر آئے ہیں ان کی صفتیں توراۃ و انجیل میں تمہارے ہاتھوں میں موجود ہیں تو فخاص نے جواب میں کہا ابوبکر سن اللہ کی قسم اللہ ہمارا محتاج ہے ہم اس کے محتاج نہیں اس کی طرف اس طرح نہیں گڑگڑاتے جیسے وہ ہماری جانب عاجزی کرتا ہے بلکہ ہم تو اس سے بے پرواہ ہیں٠ ہم غنی اور تونگر ہیں اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض طلب نہ کرتا جیسے کہ تمہارا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہا ہے ہمیں تو سود سے روکتا ہے اور خود سود دیتا ہے اگر غنی ہوتا تو ہمیں سود کیوں دیتا، اس پر حضرت صدیق اکبر کو سخت غصہ آیا اور فخاص کے منہ پر زور سے مارا اور فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم یہود سے معاہدہ نہ ہوتا تو میں تجھ اللہ کے دشمن کا سر کاٹ دیتا}}
اس واقعہ سے معترضین یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر توہین اللہ اور توہین رسالت کی سزا موت ہوتی تو جناب ابو بکر اس پر معاہدہ کا ذکر کرنے کی بجائے اسے قتل کر دیتے۔
سطر 173:
اہل مکہ کے معاملہ میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی قبیلہ یا شہر والے اپنا معاہدہ توڑ دیتے اور مخالفین کی مدد کرتے تھے، تو پھر ان کی شرارت کے بعد جب وہ مفتوح ہوتے تھے تو اس بدعہدی اور شرارت کے نتیجے میں حق بن جاتا تھا کہ ان سے بدلہ لیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔ مثلاً بنو قینقاع نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا اور معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں ان پر حملہ کیا گیا اور ان کی ابتدائی سزا قتل پائی، مگر ان کے چونکہ انصار کے قبیلے خزرج سے بہترین تعلقات تھے لہذا حالات کے تحت انہیں ان کے علاقے سے علاقہ بدر کر دیا گیا<ref>https://en.wikipedia.org/wiki/Banu_Qaynuqa</ref>۔اسی طرح بنو قریظۃ نے پہلے محمد {{صہ}} کے ساتھ معاہدہ کیا۔ مگر جب جنگ خندق جاری تھی تو انہوں نے کفار مکہ سے بات چیت شروع کر دی اور یوں معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں جنگ خندق کے بعد انکو عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے محمد {{صہ}} نے فوج کشی کی اور انہوں نے محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ ان کی سزا قتل پائی<ref>https://en.wikipedia.org/wiki/Banu_Qurayza</ref>۔
 
اسی طرح اہل مکہ سے صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ مگر انہوں نے بدعہدی کی۔ ابن کثیر الدمشقی سورۃ توبہ کی آیت 7 کی تفسیر<ref>{{Cite web |url=http://www.islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Imam+Ibn+Kaseer+(Hafiz+Imaduddin+Abulfida)&surah=At-Tauba&langid=39&transid=93&surahid=9 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2014-11-30 |archive-date=2013-03-12 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130312190531/http://islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Imam+Ibn+Kaseer+%28Hafiz+Imaduddin+Abulfida%29&surah=At-Tauba&langid=39&transid=93&surahid=9 |url-status=dead }}</ref> میں لکھتے ہیں:
<blockquote>"صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیاان کے حلیف بنو بکر نے محمد صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا"</blockquote>
معترضین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اس اصول کے تحت مکہ کو فتح کرنے کے بعد وہاں صرف ان 5 افراد ہی نہیں بلکہ پوری آبادی کا قتل جائز ہو چکا تھا کیونکہ یہ قصاص تھا خزاعہ کے بہائے جانے والے خون کا۔ اگر توہین رسالت کے جرم میں ہی قتل کرنا ہوتا تو مکہ، طائف و خیبر وغیرہ میں ان 5 افراد سے کہیں زیادہ لوگ توہینِ رسالت کرتے تھے اور آپ {{صہ}} کو ایذا دیتے رہے تھے اور آپ {{صہ}} کو خون تک میں لہولہان کر چکے تھے۔ پورے اہل قریش کا طرز عمل یہ تھا:
سطر 211:
== توبہ کی گنجائش نہیں، ہر صورت میں موت کی سزا ==
 
قانون توہین رسالت (پاکستان) اہل حدیث فقہ پر مبنی ہے۔ [http://islamqa.info/ur/22809 اسلام سوال جواب] {{wayback|url=http://islamqa.info/ur/22809 |date=20150108005603 }} ویب سائیٹ پر شیخ محمد صالح المنجد معافی کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں کہ<ref>{{Cite web |url=http://islamqa.info/ur/22809 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2014-12-01 |archive-date=2015-01-08 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150108005603/http://islamqa.info/ur/22809 |url-status=dead }}</ref>:
{{اقتباس|نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا عظيم حرام كاموں ميں شامل ہوتا ہے، اور بالاجماع يہ كفر اور اسلام سے ارتداد ہے، '''چاہے ہنسى مذاق ميں ہو يا حقيقتا، اور اس كے مرتكب كو قتل كيا جائے گا چاہے وہ توبہ بھى كر لے، چاہے وہ مسلمان ہو يا كافر'''.}}
 
سطر 234:
 
== سورۃ المائدہ کی آیات 33 اور 34 پر بحث ==
موجودہ توہین رسالت قانون کے حامی حضرات<ref>http://magazine.mohaddis.com/shumara/34-jan2011/970-haqooq-un-nabi-or-shatm-e-rasool-ki-toba-ka-hukm</ref> کے نزدیک اس قانون کی بنیاد سورۃ المائدہ کی آیات 33 اور 34 ہیں<ref>{{Cite web |url=http://www.islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Imam+Ibn+Kaseer+%28Hafiz+Imaduddin+Abulfida%29&surah=Al-Maidah+&langid=39&transid=93&surahid=5 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2014-12-03 |archive-date=2013-03-12 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130312192314/http://islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Imam+Ibn+Kaseer+%28Hafiz+Imaduddin+Abulfida%29&surah=Al-Maidah+&langid=39&transid=93&surahid=5 |url-status=dead }}</ref>:
{{اقتباس|جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے، اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا ئے جائیں یا اُن کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں یا اُنھیں علاقہ بدر کر دیا جائے۔ یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے، مگر اُن کے لیے نہیں جو تمھارے قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کرو اور) اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔}}
 
سطر 268:
 
اس قانون کے حامی حضرات حضرت عمر ابن الخطاب کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں جس کی تفصیل ان حضرات کی زبانی یہ ہے<ref name="banuri.edu.pk"/>:
<blockquote>اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازع ہوا. محمد صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ مسلمان جو در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح محمد{{صہ}} نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا۔ سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا۔ حضرت عمر محمد {{صہ}} کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا محمد {{صہ}}! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”<br>اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛<br>فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )<br>[سورۃ النساء 4:65<ref>{{Cite web |url=http://www.islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Tafseer+e+Usmani&surah=An-Nisaa&langid=39&transid=94&surahid=4 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2014-11-30 |archive-date=2012-10-21 |archive-url=https://web.archive.org/web/20121021112526/http://islamcomplex.com/qurantext/qurantext.php?language=Urdu&translator=Tafseer+e+Usmani&surah=An-Nisaa&langid=39&transid=94&surahid=4 |url-status=dead }}</ref>] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.<br>یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی محمد{{صہ}} کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے ۔</blockquote>
معترضین حضرات<ref name="mqmpakistani.org"/><ref name="al-mawrid.org"/> اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ:
# یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)