"ابراہیم ڈیسائی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.9
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.2
سطر 25:
ابراہیم ڈیسائی 16 جنوری 1963ء کو رچمنڈ، [[کوازولو ناتال]] میں پیدا ہوئے تھے۔<ref>{{cite news |title=جنوبی افریقہ کے مشہور مفتی ابراھیم ڈیسائی صاحب کا 15 جولائی کو ڈربن میں انتقال ہوا|url=https://www.sqnews.in/2021/07/MuftiIbrahimDesayi.html |access-date=16 July 2021 |work=Sadaye Haq News |date=16 July 2021}}</ref> انھوں نے "واٹر وال اسلامک انسٹی ٹیوٹ" میں [[حفظ قرآن|قرآن]] حفظ کیا اور [[گجرات (بھارت)]] کی [[جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل]] میں روایتی [[درس نظامی]] نصاب کی تعلیم حاصل کی۔{{Sfn|Farhana|2015|p=14, 19}} انھوں نے مفتی احمد خان پوری کی زیر نگرانی اسلامی فقہ میں مہارت حاصل کی۔{{Sfn|Farhana|2015|p=14, 19}} انھوں نے [[دار العلوم دیوبند]] کے سابق ​​صدر مفتی، [[محمود حسن گنگوہی]] سے بھی تعلیم حاصل کی ، جو کثیر الجلد '' فتاوٰی محمودیہ '' کے مصنف ہیں۔{{Sfn|Farhana|2015|p=14, 19}} وہ [[تصوف]] میں محمود حسن گنگوہی کے مجاز بھی تھے۔<ref>{{cite book |title=حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی - ان کی حیات و خدمات|publisher=تعلیمی بورڈ|page=67 |url=https://archive.org/stream/akabir/HadhratMuftiMahmoodHasanGangohi-HisLifeAndWorksByTalimiBoardKzn#page/n90/mode/1up |accessdate=16 July 2021}}</ref>
 
ڈیسائی دس سال تک مدرسہ تعلیم الدین، [[اسپنگو بیچ]] میں پڑھاتے رہے اور جمعیت علما [[کوازولو ناتال]] کے شعبہ فتوی کی صدارت بھی کرتے رہے۔<ref name="baseerat">{{cite news |title=جنوبی افریقہ کے مشہور مفتی ابراھیم ڈیسائی صاحب کا 15 جولائی کو انتقال ہواـ پچھلے کئی روز سے ان کی طبیعت خراب چل رہی تھی. |trans-title= South Afrian Mufti Ebrahim Desai passes away |url=https://www.baseeratonline.com/151024 |access-date=16 July 2021 |work=Baseerat Online |date=16 July 2021 |language=ur |archive-date=2021-07-16 |archive-url=https://web.archive.org/web/20210716030126/https://www.baseeratonline.com/151024 |url-status=dead }}</ref><ref name="afshan">{{cite journal |title=When can Muslims withdraw or withhold life support? A narrative review of Islamic juridical rulings |year=2020 |doi=10.1080/11287462.2020.1736243 |last1=Mohiuddin |first1=Afshan |last2=Suleman |first2=Mehrunisha |last3=Rasheed |first3=Shoaib |last4=Padela |first4=Aasim I. |journal=Global Bioethics |volume=31 |issue=1 |pages=29–46 |pmid=32284707 |pmc=7144300}}</ref> انھوں نے مزید دس سال [[مدرسہ انعامیہ]] کے سینئر استاذ [[حدیث]] کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔<ref name="baseerat"/> مارچ 2008ء میں [[اسلامک کاسم ٹوئٹ میموریل کالج]] (IKTMC) میں طلباء کو لیکچر دینے کے لیے [[ہانگ کانگ]] کا سفر کیا۔<ref>{{cite news |title=Talk by Islamic Scholar from South Africa |url=http://www.iktmc.edu.hk/events/20080326a.htm |access-date=15 July 2021 |work=IKTMC |date=26 March 2008 |archive-date=2011-06-25 |archive-url=https://web.archive.org/web/20110625162750/http://www.iktmc.edu.hk/events/20080326a.htm |url-status=bot: unknown }}</ref> 2011ء میں وہ [[ڈربن]] منتقل ہوگئے اور "شیرووڈ"، [[ڈربن]] میں ''دار الافتا محمودیہ'' قائم کیا۔<ref name="baseerat"/> انھوں نے دار العلوم نعمانیہ اور دار العلوم حمیدیہ میں '' [[صحیح بخاری]] '' کی تعلیم دی اور دار الافتا محمودیہ کی صدارت کی، جو انھوں نے شیرووڈ میں قائم کیا تھا۔<ref name="tandfonline">{{cite journal |doi=10.1080/11287462.2020.1736243|title=When can Muslims withdraw or withhold life support? A narrative review of Islamic juridical rulings|year=2020|last1=Mohiuddin|first1=Afshan|last2=Suleman|first2=Mehrunisha|last3=Rasheed|first3=Shoaib|last4=Padela|first4=Aasim I.|journal=Global Bioethics|volume=31|pages=29–46|pmid=32284707|doi-access=free}}</ref><ref name="afshan"/> 2000ء میں انھوں نے ایک آن لائن اسلامی سوالات اور جوابات کا ڈیٹا بیس [[آسک امام|آسک امام فتوی پورٹل]] شروع کیا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے انھیں ایک بین الاقوامی شہرت ملی۔<ref name="sisler">{{cite journal |author1=VÍT ŠISLER |title=EUROPEAN COURTS ́ AUTHORITY CONTESTED? THE CASE OF MARRIAGE AND DIVORCE FATWAS ON-LINE |journal=Masaryk University Journal of Law and Technology |date=March 2010 |volume=3 |issue=1 |pages=65, 67 |url=https://journals.muni.cz/mujlt/article/view/2525}}</ref>{{Sfn|Farhana|2015|p=51}} ویٹ سیسلر کے مطابق "ابراہیم ڈیسائی ایک ایسے عالم کی مثال قائم کی ہے کہ اگرچہ وہ عرب دنیا سے باہر غیر [[جامعہ الازہر|ازہری]] ادارہ سے فارغ تھے؛ لیکن انھوں نے بنیادی طور پر انفارمیشن اور مواصلاتی ٹکنالوجی کے ذریعہ جمع ہونے والی بڑے پیمانے پر حمایت کے ذریعہ عالمی سطح پر پہچان حاصل کی۔"<ref name="sisler"/>
 
ڈیسائی کو اسلامی مالیات اور معاشیات کے ایک بااثر عالم کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔<ref>{{cite news |title=Malawi approves Islamic Banking, Sharia-compliant services |url=https://www.nyasatimes.com/malawi-approves-islamic-banking-sharia-compliant-services/ |access-date=15 July 2021 |work=Malawi Nyasa Times |date=3 October 2017}}</ref> انھوں نے ایف این بی اسلامک فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔<ref>{{cite news |title=Entire FNB Islamic Finance board quits |url=https://businesstech.co.za/news/banking/17152/entire-fnb-islamic-finance-board-quits/ |access-date=15 July 2021 |date=7 July 2012}}</ref> دار الافتا محمودیہ کی ویب سائٹ کے مطابق؛ انھوں نے "اسلامی تجارت اور مالیات میں عصری کاروباری امور سے نمٹنے کے لیے ایک کانفرنس" کے لیے 2002ء میں شریعت کمپلینٹ بزنس مہم کا آغاز کیا۔<ref name="daruliftaa">{{cite web |title=About Mufti Ebrahim Desai |url=https://daruliftaa.net/about-mufti-ebrahim-desai/ |publisher=Darul Iftaa |access-date=15 July 2021}}</ref> ان کا نام [[رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر]] کے مرتب کردہ [[500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات]] میں شامل کیا گیا تھا۔<ref>{{cite web |title=Ebrahim Desai |url=https://themuslim500.com/profiles/ebrahim-desai/ |website=themuslim500.com |publisher=[[رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر]] |access-date=16 July 2021}}</ref> نمیرا نہوزہ نے انھیں "ہندوستانی نژاد جنوبی افریقی مفتی اعظم" کہا۔<ref>{{cite book|last=نہوزا|first=نمیرہ|authorlink=نمیرا نہوزا|title=Wahhabism and the Rise of the New Salafists: Theology, Power and Sunni Islam|url=https://books.google.com/books?id=nyaODwAAQBAJ&pg=PA119|year=2018|publisher=Bloomsbury Publishing|isbn=978-1-83860-983-2|page=119}}</ref> ان کے تلامذہ میں ابرار مرزا اور فیصل المحمودی شامل ہیں۔<ref name="chenab"/> فرحانہ نے اپنے تحقیقی مطالعہ میں اشارہ کیا ہے کہ "ڈیسائی خود دار الافتا محمودیہ کے طلبہ کے لیے مباحثہ میں ایک ماسٹر ٹیچر تھے، جہاں وہ تعلیم دیتے تھے اور جہاں ان کے تمام فتوے تیار کیے جاتے تھے۔ 2011ء میں Askimam.org پر فتووں کی ساخت کے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈیسائی کے طلبہ مختلف جغرافیائی مقامات سے تعلق رکھتے ہیں تو وہ فتوے لکھتے ہیں اور ڈیسائی ماسٹر استاذ کی حیثیت س آخری اختیار تھے، جیسا کہ فتاوٰی کے اختتامی سطور میں واضح ہے۔ ہر فتویٰ کا اختتام: "مفتی ابراہیم ڈیسائی کا معائنہ کردہ و نظر فرمودہ"۔ "{{Sfn|Farhana|2015|p=19}}