"بھارت میں ہجومی تشدد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.9
3 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.2
سطر 59:
* اجتماعی آبرو ریزی کے مضمرات کا تجزیہ کرتے ہوئے ابھیے ویدیا نے [[فرسٹ پوسٹ]] میں لکھا ہے کہ [[ریاستہائے متحدہ امریکا]] میں [[فحش نگاری|مخالف فحش نگاری]] کے فعالیت پسندوں نے [[مشی گن]] ریاستی پولیس کے جاسوس ڈاریل پوپ کی تحقیق کا حوالہ دیا کہ 38,000 [[جنسی حملہ|جنسی حملوں]] کے تجزیے میں جو 1956–1979 کے بیچ رونما ہوئے ہیں، 41% معاملوں میں جرم کے ارتکاب سے کچھ وقت پہلے یا جرم کے دوران میں فحش مواد دیکھا گیا تھا۔ اسی بات کا ثبوت [[نفسیاتی علاج]] کے ماہر ڈیوڈ اسکاٹ کے اس خیال سے بھی ملا ہے کہ "آدھے آبرو ریزی کرنے والے فحش نگاری کو خود کو متاثرہ کو دبوچنے سے پہلے مشتعل کرنے کے لیے کرتے آئے ہیں۔" اس طرح سے ملک میں آسانی سے دستیاب فحش مواد انفرادی اور اجتماعی آبرو ریزی کے معاملوں کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ مضمون نگار کے بموجب ایسے جرائم میں رشوت اور سیاسی رسوخ کافی معنی رکھتا ہے، علاوہ ازیں اجتماعی آبرو ریزی کی صورت ایک گینگ کا وجود بھی لوگوں کو عدالتی پکڑ سے بچا سکتا ہے۔ <ref>{{Cite web|url=http://www.mainstreamweekly.net/article8822.html|title=Gang-rape in India: An adventure you can get away with?|website=[[فرسٹ پوسٹ]]|access-date=2022-04-26|archive-date=2019-07-01|archive-url=https://web.archive.org/web/20190701202308/http://www.mainstreamweekly.net/article8822.html|url-status=bot: unknown}}</ref>
 
* بھارت کی تاریخ میں حالانکہ اجتماعی آبرو ریزی کے کئی واقعات پیش آئے ہیں، مگر [[2012ء دہلی میں اجتماعی جنسی زیادتی کا واقعہ]] ایک ایسا واقعہ تھا جس کے خلاف پورے ملک میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے۔ [[16 دسمبر]] [[2012ء]] کو [[بھارت]] کے دار الحکومت [[دہلی]] میں ایک طالبہ جیوتی سِنگھ پانڈے کے ساتھ بعض نوجوانوں نے ایک نجی ملکیت کی عوامی بس میں [[اجتماعی زیادتی]] کی اور اسے اور اس کے دوست لڑکے کو برہنہ سڑک پر پھینک دیا۔ پوشیدہ اعضاء میں زبردست چوٹوں اور شدید پھٹن کے سبب [[سنگاپور]] [[شفاخانہ]] میں داخل کی گئیں، جہاں [[29 دسمبر]] کو انتقال ہو گیا ۔ اس سے قبل طالبہ کو [[صفدرجنگ ہسپتال]] میں داخل کیا گیا تھا جہاں مصنوعی آلات [[تنفس]] کے ذریعہ علاج کیا گیا لیکن 13 دن بعد 26 دسمبر کو طالبہ کی نازک حالت کے پیش نظر سنگاپور ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ شدید عوامی احتجاج کے پیش نظر حکومت ہند کے [[مجرمانہ قانون (ترمیم) ایکٹ 2013ء]] بھارت کے پارلیمان سے منظور کروایا جس میں خواتین پر جنسی حملے کے معاملوں میں قوانین سخت کر دیا گیا، نئی تعریفیں اور جرائم کو شامل کیا گیا اور کئی باتیں شامل کی گئیں۔<ref>{{Cite web|url=https://www.indiantribune.com/1612-nirbhaya-rape-case-an-incidence-which-shaken-up-whole-delhi-full-story|title=16/12 Nirbhaya Rape Case: An Incidence Which Shaken Up Whole Delhi Full Story|website= انڈین ٹریبیون|access-date=2019-09-16|archive-date=2019-08-22|archive-url=https://web.archive.org/web/20190822190137/https://www.indiantribune.com/1612-nirbhaya-rape-case-an-incidence-which-shaken-up-whole-delhi-full-story|url-status=dead}}</ref> اس قانون کو عرف عام میں ''نِربھیا قانون'' کہا جانے لگا ہے کیونکہ اسی نام سے اس واقعے میں مقتول لڑکی کو اس کی زندگی میں ذرائع ابلاغ میں مخاطب کیا جاتا تھا۔<ref>{{Cite web|url=https://timesofindia.indiatimes.com/topic/Nirbhaya-Act|title=Nirbhaya Act|website= ٹائمز آف انڈیا}}</ref>
 
* [[کٹھوعہ میں جنسی زیادتی کا واقعہ|کٹھوعہ جنسی زیادتی کا معاملہ]] ایک اور سنسی خیز معاملہ ہے جو ملک کی سرخیوں میں چھایا رہا۔ یہ ایک 8 سالہ بچی آصفہ بانو کے اغوا، جنسی زیادتی اور قتل سے متعلق ہے۔ یہ معاملہ [[بھارت]] کی [[بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقے|ریاست]] [[جموں و کشمیر]] میں [[کٹھوعہ]] کے گاؤں رسانہ میں [[جنوری]] 2018ء کو پیش آیا۔ مقدمے کی چارج شیٹ پیش کر دی گئی ہے اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور مقدمے کی سماعت کے دوران میں پیش کیے بھی گئے۔ مقتول بچی [[خانہ بدوش]] قبیلے [[بکروال]] سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کی گم شدگی کے ایک ہفتے بعد اس کی لاش ملی۔ اس کے گاؤں والوں کو اس کی لاش ایک کلومیٹر دور پر ملی تھی۔ اس واقعے کا جب اپریل 2018ء میں آٹھ افراد پر الزام عائد کیا گیا تو ملک گیر خبر بن گئی۔ ملزمان کی گرفتاری پر مختلف جماعتوں کی طرف سے احتجاج شروع ہوا جن میں سے ایک احتجاج میں [[بھارتیہ جنتا پارٹی]] کے دو وزرا بھی شامل ہوئے۔ دونوں نے بعد میں استعفی دے بھی دیا۔ بعد ازاں بھارت کی سپریم کورٹ نے پینتھرز پارٹی کے سربراہ بھیم سنگھ کی طرف سے سی بی آئی سے آزادانہ تحقیقات کروانے کی درخواست کی سماعت کی، تاہم اسے مسترد کر دیا گیا۔<ref>{{Cite news|url=http://www.uniindia.com/hand-over-kathua-rape-murder-case-to-cbi-bhim-urges-pm/states/news/1200017.html|title=Hand over Kathua rape-murder case to CBI: Bhim urges PM|last=|first=|date=14 اپریل 2018|work=United News of India|access-date=|archive-url=|archive-date=|dead-url=}}</ref><ref>{{Cite news|url=http://indianexpress.com/article/india/kathua-rape-case-sc-directs-j-k-govt-to-provide-security-to-victims-kin-lawyers-5139347/|title=Kathua victim’s father says shift trial, Supreme Court seeks J-K govt reply|last=|first=|date=2018-04-17|work=The Indian Express|access-date=2018-04-18|dead-url=|language=en-US|quote=“Ordinarily, police is the authority for investigation. A case has to be made out that it (investigation) is not going in the right manner. In the absence of that, as presently advised, we are not entering into that,” the bench told Senior Advocate and National Panthers Party Chief Patron Bhim Singh, who sought to intervene in the matter.|archiveurl=https://web.archive.org/web/20190107042236/https://indianexpress.com/article/india/kathua-rape-case-sc-directs-j-k-govt-to-provide-security-to-victims-kin-lawyers-5139347/|archivedate=2019-01-07|url-status=live}}</ref><ref>{{Cite news|url=https://www.telegraphindia.com/india/sc-query-on-plea-for-trial-transfer-223965|title=SC query on plea for trial transfer|last=|first=|date=|work=The Telegraph|access-date=2018-04-18|dead-url=|language=en|quote=The bench, however, made it clear that it would not allow any intervention application after senior advocate and J&K Panthers Party leader Bhim Singh pleaded that the matter be entrusted to an independent agency like the CBI.|archiveurl=https://web.archive.org/web/20190107042242/https://www.telegraphindia.com/india/sc-query-on-plea-for-trial-transfer/cid/1342151|archivedate=2019-01-07|url-status=live}}</ref> اگر چیکہ اس جرم میں عدالت نے کچھ ملزموں کو سزا سنائی، تاہم جنسی زیادتی اور قتل کے علاوہ ملزمان کے لیے حمایت کے خلاف وسیع پیمانے پر ملک بھر ناراضی پھیل گئی تھی۔<ref name=BBC>{{Cite news|url=http://www.bbc.com/news/world-asia-india-43749235|title=Outrage spreads over eight-year-old's rape|date=13 اپریل 2018|work=BBC News|access-date=13 اپریل 2018|language=en-GB|archiveurl=https://web.archive.org/web/20190107042323/https://www.bbc.com/news/world-asia-india-43749235|archivedate=2019-01-07|url-status=live}}</ref><ref name=Outlook>{{Cite news|url=https://www.outlookindia.com/website/story/jk-kathua-rape-and-murder-of-8-year-old-girl-was-aimed-at-driving-nomads-out-off/309368|title=J&K: Kathua Rape-And-Murder Of 8-Year-Old Girl Was Aimed At Driving Nomads Out: Official|last=|first=|date=|work=Outlook India|access-date=11 اپریل 2018|dead-url=|archiveurl=https://web.archive.org/web/20190107042238/https://www.outlookindia.com/website/story/jk-kathua-rape-and-murder-of-8-year-old-girl-was-aimed-at-driving-nomads-out-off/309368|archivedate=2019-01-07|url-status=live}}</ref><ref name=WaPo>{{Cite news|url=https://www.washingtonpost.com/news/worldviews/wp/2018/04/11/an-8-year-olds-rape-and-murder-inflames-tensions-between-hindus-and-muslims-in-india/|title=An 8-year-old’s rape and murder inflames tensions between Hindus and Muslims in India|last=Eltagouri|first=Marwa|date= اپریل 11, 2018|work=[[واشنگٹن پوسٹ]] |access-date=12 اپریل 2018|language=en-US|issn=0190-8286}}</ref> [[سماجی میڈیا]] کے ویب سائٹوں جیسے کہ [[فیس بک]]، [[ٹویٹر]]، [[انسٹاگرام]] وغیرہ پر ''#JusticeforAsifa (آصفہ کے لیے انصاف) کا ہیش ٹیگ '' بہت مقبول ہو چکی تھا، جس کے ذریعے عوامی غصے کا کافی اظہار کیا گیا۔ <ref>{{Cite web|url=https://www.indiatimes.com/news/india/as-asifa-gangrape-case-shocks-nation-j-k-to-make-death-penalty-must-for-rapists-of-minors-343395.html|title=#JusticeForAsifa: J&K To Make Death Penalty Mandatory For Monsters Who Rape Children|website= انڈیا ٹائمز}}</ref>
سطر 304:
[[فائل:Anurag kashyap.jpg|تصغیر|فلمساز [[انوراگ کشیپ]] کی تصویر]]
ایک اور خط کے دستخط کنندے اور فلمساز انوراگ کشیپ کو ہجومی تشدد اور حکومت کے خلاف گویائی کی وجہ سے [[ٹویٹر]] پر ٹرول کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے والدین اور ان کی بیٹی کو دھمکیاں وصول ہو رہی تھی۔ ان کی بیٹی کو [[آبرو ریزی|عصمت دری]] کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس بات کا اظہار انہوں نے اپنے ٹویٹر کھاتے اسے دیے جانے والے اخیر کے دو ٹویٹوں میں کیا تھا۔ پھر انہوں نے اپنا ٹویٹر کھاتہ حذف کر دیا۔ انوراگ اکثر بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد بھی رہے ہیں اور انہوں نے [[جموں و کشمیر تنظیم نو بل، 2019ء|دستور کی دفعہ 370 کی حذف شدگی]] اور کئی اور اہم موضوعات پر حکومت سے شدید اختلاف رائے رکھتے آئے ہیں اور ان باتوں کا بھی انہوں نے ٹویٹر پر کھل کر اظہار کیا تھا۔
<ref name="Anurag Kashyap deletes Twitter account; here's why">{{Cite web|url=https://www.newsbytesapp.com/timeline/Entertainment/50049/229031/anurag-kashyap-quits-twitter-citing-threats-to-family|title=Anurag Kashyap deletes Twitter account; here's why|date= جولائی 30, 2019|website=نیوز بائٹص ایپ ڈاٹ کام|access-date=2019-09-16|archive-date=2019-08-20|archive-url=https://web.archive.org/web/20190820194148/https://www.newsbytesapp.com/timeline/Entertainment/50049/229031/anurag-kashyap-quits-twitter-citing-threats-to-family|url-status=dead}}</ref>
 
=== کاروباری شخصیات کا رد عمل ===
سطر 753:
</ref>
 
* '''ہجومی تشدد – کیا ہمیں اس پر نئے قانون کی ضرورت ہے؟''' {{دیگر نام|انگریزی= MOB LYNCHING – DO WE NEED A NEW LAW ON IT? }}: اس مقالے کو شیرین خان اور میور تیجاوت نے لکھا ہے۔ یہ دونوں [[اندور]] میں قانون کے طالب علم ہیں۔ مضمون میں متعدد ہجومی قتل کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس [[دیپک مشرا]] کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے جو تحسین پوناوالا بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمے کہا گیا تھا: "سپریم کورٹ کا ایقان ہے کہ پارلیمنٹ ہجومی قتل سے نمٹنے کے لیے ایک نیا قانون بنا سکتا ہے جس سے امکانی ہجومی قاتلوں میں ڈر بیٹھ سکے۔" اس طرح سے ملک کی عدالت علیا اس موضوع پر نئی قانون سازی کا حامی پایا گیا تھا۔ اوپر مذکور مقالے '''بھارت میں ہجومی تشدد: واٹس ایپ سماجی میڈیا کا سماجی میڈیا سے سماج دشمن میڈیا بننا''' کی طرح اس مقالے 2006ء کے خیر لانجی قتل عام کو جدید ہجومی قتلوں کے آغاز کے طور پر پیش کیا گیا گیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس مقالے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2006ء کے بعد سے کوئی ہجومی قتلوں کا متواتر سلسلہ ملک میں نہیں دیکھا گیا۔ مگر یہ صورت حال [[جون]] [[2017ء]] میں اس وقت بدل گئی جب ملک میں ہجومی قتل کے پانچ واقعات ایک ہی مہینے میں پیش آئے۔ اس سے ملک کے جدید سماج میں بد نظمی اپنے آپ ثابت ہو گئی ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ کے جج کا تبصرہ اور ایک ساتھ کم وقت میں ہجومی قتلوں کی بڑھتی تعداد نئی قانون سازی کو دیگر کئی باتوں کی طرح بے حد ضروری ظاہر کرتے ہیں۔ مقالے کے اختتام میں یہ یاد دلا دیا گیا ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے۔ اس میں مسلمان، سکھ، جین، بدھمتی اور مسیحی بھی ہیں۔ یہ ایک سیکیولر ملک ہے اور ''تنوع میں اتحاد ہی اس کی طاقت ہے''۔ <ref>{{cite journal
| publisherlast1 = Khan
{{cite journal
| last1 first1 = KhanShireen
| first1 author-link1 = Shireen
|last2 author-link1 = Tejawat
| last2 first2 = TejawatMayur
| first2 author-link2 = Mayur
|last3 author-link2 =
| last3 first3 =
| first3 author-link3 =
|last4 author-link3 =
| last4 first4 =
| first4 author-link4 =
|last5 author-link4 =
| last5 first5 =
| first5 author-link5 =
| authordisplay-link5 authors =
| displayauthor-authorsmask =
| authorname-mask list-format =
| namelast-listauthor-formatamp = =
|date last-author-amp =
| date year =
| orig-year =
| origeditor1-year last =
| editor1-last first =
| editor1-first link =
| editor1editor2-link last =
| editor2-last first =
| editor2-first link =
| editor2editor3-link last =
| editor3-last first =
| editor3-first link =
| editor3editor4-link last =
| editor4-last first =
| editor4-first link =
| editor4editor5-link last =
| editor5-last first =
| editor5-first link =
| editor5display-link editors =
|others display-editors =
| others title =
| script-title =
| scripttrans-title =
| url = http://journal.jusimperator.org/wp-content/uploads/2018/10/SHIREEN-KHAN-MAYUR-TEJAWAT.pdf
| transdead-title url =
| url = http://journal.jusimperator.org/wp-content/uploads/2018/10/SHIREEN-KHAN-MAYUR-TEJAWAT.pdf
| dead-url format = PDF
| format url-access = PDF
|department url-access = Department of =Law
| department journal = JUS Department of LawImperator
| journal type = JUS Imperator
| type series =
| series language =
| language edition =
| edition location =
| location publisher =
|publication-place =
| publisher =
| publication-placedate = September = 2018
|volume publication-date = September 2018 = 2
| volume issue = 21
| issue page = 1
| page pages = 1-15
| pages at = 1-15
| at nopp =
| nopp arxiv =
| arxiv asin =
| asin bibcode =
| bibcode biorxiv =
| biorxiv citeseerx =
|doi citeseerx =
| doi -broken-date =
| doi-broken-dateaccess =
|isbn doi-access =
|issn isbn = =2456-9666
| issn jfm = 2456-9666
| jfm jstor =
| jstor -access =
|lccn jstor-access =
| lccn mr =
| mr oclc =
| oclc ol =
| ol-access = =
|osti ol-access =
| osti-access = =
|pmc osti-access =
| pmc pmid =
| pmid rfc =
| rfc ssrn =
| ssrn zbl =
| zbl id =
|archive-url = https://web.archive.org/web/20190826193400/http://journal.jusimperator.org/wp-content/uploads/2018/10/SHIREEN-KHAN-MAYUR-TEJAWAT.pdf
| id =
| archive-url date = 2019-08-26
| archiveaccess-date =
|via access-date =
| via registration =
| registration subscription =
|lay-url subscription =
| lay-url source =
| lay-source date =
| lay-date quote =
| quote postscript =
|ref postscript =
|url-status ref = =dead
}}</ref>
</ref>
* ''' ہجومی قتل: نئی قانون سازی یا موجودہ فوجدادی قوانین پر ہی اکتفا کرنا چاہیے؟ ''' {{دیگر نام|انگریزی= Mob Lynching: Tailoring Legislative Enactments or Fall Back on Existing Criminal Legislations? }}: اس مضون کو راجندرا سرکاروار نے انٹرنیشنل جرنل آف لا مینیجمنٹ اینڈ ہیومینیٹیز کے لیے لکھا ہے۔ سرکاروار کا تعلق [[ویسٹ بنگال نیشنل یونیورسٹی آف جوڈیشیل سرویسیز]] سے ہے۔ اس مضمون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حالانکہ ملک میں ہجومی تشدد سے متعلق ملک میں قوانین کی کمی نہیں ہے، تاہم جس طرح کہ انسانی حقوق کے فعالیت پسند اور [[دہلی یونیورسٹی]] کے پروفیسر [[اپوروانند]] نے کہا ہے کہ "یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت کے قانون ساز اور ارکانِ پارلیمان ملک کے مسلمانوں کو چھوڑ چکے ہیں۔ " نیز سپریم کورٹ کی واضح ہدایت موجود ہے کہ "پولیس کو ایسے معاملوں میں تعزیرات ہند کی 153 اے کے تحت ایف آئی آر درج کرنا چاہیے۔ فوجداری قوانین کی دفعہ 357 کے تحت معاوضہ کی اسکیم تیار کرنا چاہیے، فاسٹ ٹریک کورٹ کی گنجائش، ایسے معاملوں میں سخت سزا اور ریاست کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ غیر فعال افسروں پر تادیبی کار روائی ہونا چاہیے۔" مقالے میں خاص طور پر قانون کی سطحی عمل آوری پر تنقیدی نظر دوڑائی گئی ہے۔ غالبًا ''غیر فعال یا سست جو افسروں پر تادیبی کار روائی'' کے نہ ہونے کی وجہ سے گئو رکشکوں کی شدید پٹائی سے متاثر رہبر خان خان کو ہسپتال لے جانے میں ساڑھے تین گھنٹے کی دیر ہوئی تھی، جو رہبر کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ مقالے کے اختتام پر سرکاروار پھر سے اس بات پر زور دیتے ہیں ہجومی تشدد پر قانون سازی کا یقینًا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ ہدایات کو اگر اس مجوزہ قانون میں شامل کیا جائے تو یہ اچھی شروعات ہو سکتی ہے جس سے ملک بھر میں طاعون کی طرح پھیل رہے ہجومی تشدد کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔ <ref>
{{cite journal