"عطیہ فیضی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم) |
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.2 |
||
سطر 1:
{{خانہ معلومات شخصیت}}
'''عطیہ فیضی''' یا عطیہ فیضی رحامین؛ عطیہ بیگم؛ شاہندا؛ عطیہ بیگم فیضی رحیمین (1 اگست 1877 - 4 جنوری 1967)عطیہ بنت حسن علی، ایک [[برطانوی راج|ہندوستانی، پاکستانی]] مصنفہ اور [[جنوبی ایشیا]]ء سے [[جامعہ کیمبرج|کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل]] کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ <ref name=":0"/> <ref>{{حوالہ ویب|title=Atiya Fyzee 1877-1967|url=https://sister-hood.com/sister-hood-staff/atiya-fyzee-1877-1967/|date=2019-02-05|website=sister-hood magazine. A Fuuse production by Deeyah Khan.|language=en-GB|accessdate=2020-05-13|archive-date=2020-11-07|archive-url=https://web.archive.org/web/20201107223928/https://sister-hood.com/sister-hood-staff/atiya-fyzee-1877-1967/|url-status=dead}}</ref> <ref>{{حوالہ ویب|url=https://tribune.com.pk/story/1454059/ever-lingering-fate-fyzee-rahamin-art-gallery/|title=The ever lingering fate of the Fyzee Rahamin Art Gallery|date=2017-07-10|website=The Express Tribune|language=en-US|accessdate=2019-02-19}}</ref>
علامہ اقبال کو جرمنی سے واپسی پر برصغیر کے دو اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے منسلک ہونے کی پیشکش ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور نے انہیں فلسفے کے پروفیسر کی ملازمت کا عندیہ دیا۔ اقبال نے اس پیشکش پر وکالت کو ترجیح دی۔ابتدائی دو برسوں میں انہیں احساس ہو گیا کہ وکالت سے ان کی معاشی زندگی میں استحکام نہیں آ سکتا۔ ایسے میں انہوں نے ریاست حیدرآباد سے وابستہ ہونے کا ارادہ کیا۔ اسی سلسلے میں وہ 1907ء میں ریاست کے وزیر خزانہ سر اکبر حیدری کے مہمان کی حیثیت سے کئی دن ریاست میں مقیم رہے۔ لاہور واپسی پر انہیں یکے بعد دیگرے دو خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن میں اس مجوزہ خیال پر ان کی سخت سرزنش کی گئی تھی۔ خود اقبال نے اس دوستانہ تنبیہہ کو ’میٹھی جھڑکیوں‘ اور ’ملامت نامہ‘ جیسے لفظوں سے یاد کیا ہے۔ خدا جانے خطوط میں کی گئی سرزش کا اثر تھا کہ کوئی اور وجہ اقبال اپنے ارادے سے باز رہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ حیدر آباد کی سرکاری ملازمت میں چلے جاتے تو شاید اقبال نہ ہوتے۔ شاعر مشرق کے ارادوں کے راستے میں مزاحم ہونے والی یہ ہستی عطیہ فیضی تھی۔ انہیں اندیشہ تھا کہ حیدرآباد جا کر اقبال اپنی ترجیحات اور توانائیوں کو کسی معمولی کام میں صرف نہ کر دیں۔
|