"رام پرساد بسمل" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.3 |
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.4 |
||
سطر 28:
== دادا اور والد ==
بسمل کے دادا نارائن لال کا آبائی گاؤں [[بربائی]] تھا جو اس وقت [[ریاست گوالیر]] میں [[دریائے چمبل]] کے بیهڑو کے درمیان واقع [[تومرگھار]] علاقے کے [[مورینا]] ضلع ( موجودہ [[مدھیہ پردیش]] ) میں آج بھی ہے۔ [[بربائی]] کے دیہاتی بڑے ہی غیر ملنسار فطرت کے تھے۔ وہ آئے دن [[انگریز]]وں اور ان کے قبضہ والے دیہاتیوں کو تنگ کرتے تھے۔ خاندانی اختلاف کی وجہ سے نارائن لال نے اپنی بیوی وچترا دیوی اور دونوں بیٹوں مرلیدھر اور كلیان مل سمیت اپنا آبائی گاؤں چھوڑ دیا۔<ref name = krishnaveer>रामप्रसाद, बिस्मिल (2007) डॉ.कृष्णवीर सिंह, चौहान ed. (Hindi में) स्वाधीनता की देवी कैथरिन (1 ed.) जयपुर: साहित्य चन्द्रिका प्रकाशन pp. 103 आई॰ऍस॰बी॰ऍन॰ 81-7932-061-8۔</ref> ان کے گاؤں چھوڑنے کے بعد بربائی میں صرف ان کے دو بھائی - امن سنگھ اور سمان سنگھ ہی رہ گئے جن کے خاندان آج بھی اسی گاؤں میں رہتے ہیں۔ آج [[بربائی]] گاؤں کے ایک پارک میں مدھیہ پردیش حکومت کی طرف سے رام پرساد بسمل کا ایک مجسمہ نصب کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ [[مورینا]] میں بسمل کا ایک مندر بھی بنا دیا گیا ہے۔<ref>{{Cite web|url=https://news.webindia123.com/news/articles/India/20091209/1401248.html|title=Temple for martyr Pandit Ram Prasad Bismil in MP district|website=news.webindia123.com|access-date=2019-04-08|archive-date=2019-04-08|archive-url=https://web.archive.org/web/20190408050149/https://news.webindia123.com/news/articles/India/20091209/1401248.html|url-status=dead}}</ref> وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خاندان اترپردیش کے تاریخی شہر [[شاہجہاں پور]] آ گیا۔ [[شاہجہاں پور]] میں [[منوگنج]] کے دروازے کے قریب واقع ایک عطار کی دکان پر صرف تین روپے ماہانہ پر نارائن لال نے نوکری کر لی۔ اتنے کم پیسے میں ان کے خاندان کا گزارا نہ ہوتا تھا۔ دونوں بچوں کو [[روٹی]] بنا کر دی جاتی لیکن شوہر اور بیوی نصف بھوکے پیٹ ہی پر گزارا کرتے۔ ساتھ ہی کپڑوں اور کرایہ کا مسئلہ بھی تھا۔ بسمل کی دادی وچترا دیوی نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے مزدوری کرنے پر غور کیاتھا، لیکن نامعلوم خاتون کو کوئی بھی آسانی سے اپنے گھر میں کام پر نہ رکھتا تھا۔ آخر انہوں نے اناج پیسنے کا کام شروع کر دیا۔ اس کام میں ان کو تین چار گھنٹے اناج پیسنے کے بعد ایک یا ڈیڑھ پیسہ مل جاتا تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً دو تین سال تک چلتا رہا۔<ref name = krishnaveer/>
نارائن لال تھے تو تومر ذات کے [[چھتریہ]] لیکن ان کے افکارواعمال، سنجیدگی اور مذہبی رجحان کی وجہ سے مقامی لوگ اکثر انہیں " پنڈت جی " ہی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اس سے انہیں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا تھا کہ ہر تہوار پر دان دکشنا اور کھانے وغیرہ گھر میں آ جایا کرتے تھے۔ اسی درمیان نارائن لال کو مقامی باشندوں کی مدد سے ایک اسکول میں سات روپیے ماہانہ پر نوکری مل گئی۔ کچھ وقت بعد انہوں نے یہ کام بھی چھوڑ دیا اور ریزگاری ( ایک آنہ - دو آنہ - چونی کے سکے ) فروخت کرنے کا کاروبار شروع کر دیا۔ اس سے انہیں روزانہ پانچ - سات آنے کی آمدنی ہونے لگی۔ اس سے ان کی معاشی حالت سدھرنے لگی۔ نارائن لال نے رہنے کے لیے ایک مکان بھی شہر کے كھرنی باغ محلے میں خرید لیا اور بڑے بیٹے مرلی دھر کی شادی اپنے سسرال والوں کے خاندان کی ہی ایک نیک طینت مول متی سے کر کے اسے اس نئے گھر میں لے آئے۔ گھر میں بہو کے قدم پڑتے ہی بیٹے کی بھی قسمت بدلی اور مرلی دھر کو [[شاہجہاں پور]] کی [[بلدیہ]] میں 15 روپیے ماہانہ تنخواہ پر نوکری مل گئی۔ لیکن انہیں یہ کام پسند نہیں آیا۔ کچھ دن بعد انہوں نے ملازمت ترک کرکے کچہری میں سٹامپ پیپر فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اس کاروبار میں انہوں نے اچھا خاصا پیسہ کمایا۔ تین [[بیل گاڑی]]اں کرایہ پر چلنے لگیں اور [[سود]] پر روپیہ بھی دینے لگے۔<ref name = krishnaveer/>
|