"مرگ انبوہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
13 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.2 |
14 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5 |
||
سطر 55:
مرگ{{زیر}} انبوہ کا محرک خالصتا{{دوزبر}} نظریاتی تھا، جس کی بنیاد نازیوں کی تصوراتی دنیا تھی، جہاں ایک عالمی یہودی سازش دنیا پر حکومت کرنے کے درپے تھی اور نازی اس کے مقابلے میں ایک مقدس جنگ لڑ رہے تھے۔ نسل کشی کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی نسل کشی فرضی حکایات اور فریب{{زیر}} خیالات کی بنیاد پر نہیں کی گئی، انتہائی بے بنیاد، کبیدہ خاطر نظریہ-- جس پر بڑے منظم انداز میں نتائج سے بے نیاز ہوکر عمل کیا گیا۔ <ref name=BauerRethinking48>{{cite book |author=[[w:Yehuda Bauer|یہودا باؤر]] |title=مرگ انبوہ پر ایک نظر |publisher=ناشر جامعہء یالے |location=نیو ہیون، کون |year=2002 |pages=صفحہ نمبر 48 |isbn=0-300-09300-4 |oclc= |doi=}}</ref>
</blockquote>
نازیوں کے زیرنگیں تمام علاقوں میں مذبح خانے تھے، جہاں انسانی ذبیحہ کیا جاتا تھا، اب اُن علاقوں میں 35 مختلف یورپی ممالک موجود ہیں۔ <ref>[http://history1900s.about.com/library/holocaust/blmap.htm مرگ{{زیر}} انبوہ میں بنائے گئے توجیہی و نسل کُشی کے کیمپس کا نقشہ] {{wayback|url=http://history1900s.about.com/library/holocaust/blmap.htm |date=20090221161050 }}</ref>
وہ وسطی اور مشرقی یورپ کے لیے بدترین وقت تھا، [[1939ء]] یورپ میں تقریبا{{دوزبر}} سترلاکھ (7ملین) یہودی آباد تھے، جن میں تقریبا{{دوزبر}} پچاس لاکھ (5 ملین) یہودی مارے گئے۔ جس میں سے تیس لاکھ (3 ملین) پولینڈ میں قتل کیے گئے اور دس لاکھ (ایک ملین) سوویت یونین میں قتل کیے گئے ۔ اس کے علاوہ لاکھوں یہودی [[نیدرلینڈز]]، [[فرانس]]، [[بلجئیم]]، [[یوگوسلاویہ]] اور [[یونان]] میں قتل کیے گئے۔ [[وانسی کانفرنس|وانسی پروٹوکول]] نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ “یہودیوں کے سوال کا حتمی جواب“ کا یہ مشن [[انگلستان|انگلینڈ]] اور [[جمہوریہ آئرستان|آئرلینڈ]] میں بھی کرنا چاہتے تھے۔ .<ref name=GilbertOxford>{{cite book |author=آئن ڈئیر|title=دوسری جنگ عظیم میں آکسفورڈ کا ساتھی |url=https://archive.org/details/oxfordcompaniont0000unse_y4p2|publisher=ناشر جامعہء آکسفورڈ|location=آکسفورڈ [w:Oxfordshire|آکسفورڈشائر] |year=2001 |pages= |isbn=0-19-860446-7 |oclc= |doi=}}</ref>
ہر اس انسان کو نسل کشی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، جس کی تین یا چار نسل قبل بھی [[دادا]]، [[دادی]]، [[نانا]] یا [[نانی]] کوئی بھی یہودی تھا۔ نسل کشی کے دوسرے واقعات میں لوگوں کو جان بچانے کے لیے مذہب تبدیل کردینے یا کسی دوسرے مذہب کو قبول کرلینے پر جان بخشی کردی جاتی تھی لیکن مرگ{{زیر}} انبوہ کے دوران مقبوضہ یورپ کے یہودیوں کے لیے یہ گنجائش بھی نہیں تھی۔<ref name="BauerRethinking">[[w:Yehuda Bauer|یہودا باؤر]]. ''مرگ انبوہ پر ایک نظر'' نیو ہیون، یالے یو پی، 2002 صفحہ نمبر 49، اس نقطہ کا اچھا خلاصہ دیکھیں یہودا باؤر [http://www.israel-mfa.gov.il/mfa/go.asp?MFAH0k2i0].</ref>
سطر 101:
<li> <ref name=autogenerated2>[[w:Lucy Dawidowicz|لوسی ڈیوڈوش]]. ''یہودیوں کے خلاف جنگ، بیٹم،1986.</ref>
<li> <ref name=Berenbaum125>مائیکل بیرن باؤم۔ “دنیا لازمی جانے“ امریکی یادگاری عجائب گھر برائے مرگ انبوہ، 2006, صفحہ نمبر 125</ref>
<li> <ref name="autogenerated1">ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ اسی ہزار سے ایک لاکھ نوے ہزار غیر یہودی افراد مارے گئے۔ یہ اندازہ پولینڈ کے معروف مورخ فرینشیک پائپر کا مرتب کردہ ہے جو آشویتش کے تاریخ داں ہیں۔ [http://www.ushmm.org/education/resource/poles/poles.php?menu=/export/home/www/doc_root/education/foreducators/include/menu.txt&bgcolor=CD9544 پولینڈ نژاد: نازی دور کے شکار] {{wayback|url=http://www.ushmm.org/education/resource/poles/poles.php?menu=
<li> <ref>[http://www.holocaust-trc.org/sinti.htm "Sinti and Roma"], امریکی یادگاری عجائب گھر برائے مرگ انبوہ(USHMM). امریکی یادگاری عجائب گھر برائے مرگ انبوہ کے مرتب کردہ علمی و تحقیقی اندازوں کے مطابق دولاکھ بیس ہزار سے پانچ افراد مارے گئے، مائیکل بیرن باؤم اپنے مقالے “دنیا لازمی جانے“ جو امریکی یادگاری عجائب گھر برائے مرگ انبوہ نے بھی شائع کیا، لکھتا ہے کہ جرمن حکومت میں سنجیدہ محققین کے مطابق نوے ہزار سے دو لاکھ افراد مارے گئے۔ مائیکل بیرن باؤم۔ “دنیا لازمی جانے“ امریکی یادگاری عجائب گھر برائے مرگ انبوہ، 2006, صفحہ نمبر 126</ref>
<li> <ref>ڈونا ایف ریان، جان ایس ششمان، [http://books.google.com/books?id=8d56MtJWQ7sC&pg=PA62&dq=Action+T4+250,000&ie=ISO-8859-1&sig=YnkS6udw8SIoYZGMX2nLsEUjdrI 'ہٹلر کے دور{{زیر}} حکومت میں بہرے لوگ], Gallaudet University Press 2002, 62</ref>
|