"کورونائی ادب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.8
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
سطر 13:
اسی طرح 2021ء کے آغاز میں محمد اعظم ندوی (حیدرآباد)نےکورونا سے متعلق نثری اور منظوم تخلیقات کا ایک مجموعہ’’کورونائی ادب‘‘ کے نام سے ترتیب دیا، جس میں خود مرتب کی اور ہندوپاک کے دیگر کئی ادباء وشعراء کی کورونا سے متعلق دلچسپ تحریریں اور نظمیں شامل ہیں۔کورونائی ادب سے متعلق یہ مجموعہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے اور کورونا دور کی ایک تاریخی یاد گار ہے، اس کا مقدمہ مشہور عالم دین اور قلمکار مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے لکھا ہے، اور مکتبہ احسان لکھنؤ سے یہ کتاب طبع ہوئی ہے۔<ref>{{Cite web|url=http://aawaaznews.ad4allover.in/?p=19924|title=مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی کے ہاتھوں محمد اعظم ندوی کی کتاب ’’کورونائی ادب‘‘ کا رسم اجرا|date=08-02-2021|accessdate=22-02-2022|website=آواز نیوز}}</ref>
 
اسی طرح ایک اہم تخلیق محمد شاہد خاں  کی قرنطینی یادداشتوں پر مشتمل ’’کورونا مریض کی ڈائری‘‘ ہے۔یہ ڈائری بارہ مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے گیارہ ایک ماہ کی طبی حراست یعنی قرنطینہ کے دوران قلمبند کیے گئے اور آخری آرٹیکل قرنطینی شہریت واپس لیے جانے کے بعد لکھا گیا جو اس صبر آزما ایک ماہ کے احساسات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ ان مضامین کی ادبی اور دستاویزی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن ان کا سماجی مرتبہ زیادہ بلند اور قابل احترام ہے ،کیونکہ یہ مضامین جس وقت لکھے جارہے تھے ، اس یاسیت اور بے یقینی کے عالم میں ستارۂ سحری ثابت ہورہے تھے۔ نفسیاتی خوف کی وہ چادر جو عام لوگوں کے دل و دماغ پر طاری تھی، اس ڈائری کے ہر نئے صفحے کے ساتھ اس کے دھاگے کسمساکر ٹوٹتے جا رہے تھے۔<ref>{{Cite web|url=https://mazameen.com/oped/column/%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%D9%85%D8%B1%DB%8C%D8%B6-%DA%A9%DB%8C-%DA%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%B3%D9%85-%D8%A7%D8%AC%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%B9.html|title=کورونا مریض کی ڈائری کی رسم اجرا اور شعری نشست|date=28-11-2020|accessdate=22-02-2022|website=مضامین|publisher=عتیق انظر|last=انظر|first=عتیق|archive-date=2022-02-22|archive-url=https://web.archive.org/web/20220222061100/https://mazameen.com/oped/column/%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%D9%85%D8%B1%DB%8C%D8%B6-%DA%A9%DB%8C-%DA%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%B3%D9%85-%D8%A7%D8%AC%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%B9.html|url-status=dead}}</ref>
 
دوسری طرف شعراء نے بھی اپنے احساسات و جذبات کو منظوم شکل دی اور ساتھ ہی ساتھ اس جبری تنہائی سے لڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے مفید استعمال کا خیال پھیلنا شروع ہوا۔ کئی شاعروں نے یوٹیوب چینلز بنا ئے، کچھ فیس بُک اور سوشل میڈیا پر اپنا کلام پیش کرنے لگے۔ ساتھ ہی اداروں نے بھی آن لائن مشاعروں، کانفرنسزاور سیمینارز کا انعقاد ممکن بنانے پر توجّہ دی اور یوں اچھا خاصا ’’کورونائی ادب‘‘ وجود میں آگیا۔ یہ ادب مختلف رسالوں نے گوشوں اور نمبرز کی صُورت شایع کرکے محفوظ دستاویز میں تبدیل کیا،تو مسرت زہرا کنول نے وبا کے مختلف پہلوئوں پر غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’درد کی دہلیز پر‘‘ کتابی شکل میں بھی شایع کیا، جسے’’کورونا شاعری‘‘ کا پہلا مجموعہ قرار دیا گیا۔