"بھارت میں کووڈ 19 کی وبا کے دوران مسلمانوں کی سماجی خدمات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
سطر 242:
[[مسیحیت|مسیحی]] مبلغین اکثر [[مرقس کی انجیل]] میں مرقوم [[یسوع مسیح]] کی تعلیم کا حوالہ دیتے ہیں: "تم لوگ اپنے پڑوسی کو اپنی طرح چاہوگے"۔ یہ کئی انسانی بھلائی کی سرگرمیوں کی بنیاد اور بنیادی انسانی ہمدردی کے نقطۂ آغاز کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔<ref>[https://www.crosswalk.com/faith/spiritual-life/7-ways-to-love-your-neighbor-as-yourself.html سات طریقے جن کی وجہ سے آپ اپنے پڑوسی کو اپنی طرح چاہ سکتے ہیں]</ref> ایک مسیحی ویب گاہ جو ''گلوکل مشن'' مسیحی تبلیغی گروب سے تعلق رکھتی ہے، نے انسانی فطرت کا نچوڑ یوں پیش کرتی ہے کہ ہمارے لیے یہ آسان ہوتا ہے ہم کسی عالمی مقصد پر مبنی دورے یا کہیں کی مقامی ملاقاتوں کے دوران لوگوں سے الفت سے ملیں۔ کئی بار یہ آسان ہوتا ہے کہ بے گھر آدمیوں کسی زمرہ بندی کے تحت کِھلا پِلا دیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ وہی سخی شخص اپنے باغبان کو گلاس پانی دینے میں بے زارگی کا احساس کرتا ہے۔ لوگ [[کرسمس]] کے موقع پر آسانی سے ضرورت مند بچوں کو تحفے تحائف دیتے ہیں، مگر یہ دریا دل لوگ کسی مقامی اسکول پروگرام میں پیسہ لگانے سے جھجکتے ہیں۔ یہ در حقیقت اس بات کی وجہ سے ہے کچھ صورت حال میں لوگوں کی ملاقات اتفاقی اور محض ایک بار کے لیے ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں سخاوت کا مظاہرہ کرنا آسان ہوتا ہے، جب کہ قرب و جوار کے لوگوں کی ملاقاتیں بار بار ہوا کرتی ہیں، اس لیے اس میں کنجوسی، بے زارگی اور رحم دلی کے کام کے لیے میلان میں کمی اور اسی طرح کی منفی کیفیت دیکھی جاتی ہے۔<ref>{{Cite web |url=https://glocalmission.org/glocal-mission-blog/why-loving-your-neighbor-embraces-the-heartbeat-of-missions/ |title=کیوں پڑوسی کو چاہنا مشنوں کی دھڑکنوں کو چھوتا ہے |access-date=2021-06-12 |archive-date=2021-06-12 |archive-url=https://web.archive.org/web/20210612151905/https://glocalmission.org/glocal-mission-blog/why-loving-your-neighbor-embraces-the-heartbeat-of-missions/ |url-status=dead }}</ref>
 
کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران امداد کی ضرورت لوگوں کے اڑوس پڑوس میں رہی ہے، شہر و قصبہ، ریاست و ملک، یہاں تک کہ عالمی سطح پر بھی رہی ہے۔ لہٰذا جس درجے کی سخاوت کی ضرورت رہی ہے، وہ بھی ہر سطح پر دکھائی دینا ایک لازمی اور اشد درجے کی ضرورت کی تکمیل رہی ہے۔ ایسے میں اگر مسلمانوں کے رویے اور ان کی مذہبی تعلیمات کی بات کی جائے تو سب سے پہلی بات لازمًا یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ اسلام نے حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) اور حقوق العباد (بندوں کے حقوق) کے بیچ ایک واضح حد فاصل قائم کیا ہے۔<ref>[https://darulifta-deoband.com/home/ur/others/159816 حقوق العباد اور حقوق العباد كے بارے میں]</ref> مذہبی تعلیم کی رو سے حقوق اللہ میں سوائے [[شرک]] کے اللہ ہر قسم کے گناہ کو خود معاف کر سکتا ہے، جب کہ حقوق العباد کی معافی اگر کسی بندوں کو مل سکتی ہے تو وہ صرف متعلقہ بندے سے چاہ سکتا ہے۔<ref>[http://algazali.org/index.php?threads/20054/ سورۃ البقرہ مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن]</ref> یہ حقوق ایک شخص کے اپنے ماں باپ، اپنی بیوی یا شوہر، بھائی بہن، پڑوسی، ملاقات کرنے والوں یہاں تک کہ عام غریب لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ اسلام نے پڑوسیوں کا دائرہ کافی وسیع کیا ہے۔ [[حدیث]] میں یہ کہا کہ ایک شخص کے گھر سے چالیس گھر تک اس کے پڑوسی آباد ہیں۔<ref>[{{Cite web |url=http://www.salahadeenmosque.org.uk/rights-of-the-neighbour-in-islam/ |title=اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق] |access-date=2021-06-12 |archive-date=2021-06-12 |archive-url=https://web.archive.org/web/20210612151418/http://www.salahadeenmosque.org.uk/rights-of-the-neighbour-in-islam/ |url-status=dead }}</ref> غیر مسلم پڑوسیوں سے بھی ہمدردی سے پیش آنے کا بھی اسلام میں حکم موجود ہے۔<ref>
[https://aboutislam.net/reading-islam/living-islam/10-tips-to-approach-your-non-muslim-neighbor/ دس طریقے جن سے آپ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں تک پہنچ سکتے ہیں]
</ref> جس طرح سے اوپر کے واقعات درج ہیں کہ کس طرح مسلمانوں نے دیگر مذاہب کے مصیبت زدہ، ضرورت مند اور متوفی افراد کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے اہل خانہ کی مدد کی، اس طرز عمل یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مرور زمانہ میں اگر چیکہ مسلمان سختی سے اسلام پر عمل پیرا بھلے ہی نہ بھی ہوں، تاہم ان کے ایک معتد بہ حصے نے مقدور بھر ہمدردی اور غم گساری کی کوشش کی۔ اس میں وہ چند معروف واقعات مضمون میں درج کیے جا چکے ہیں، جب کہ اس سے کئی گنا واقعات اس متصل ایسے بھی ہیں جو خبر یا سرخیوں میں آنے سے رہ گئے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اختصار سے بھی یہاں درج نہیں ہو پائے۔ اسلام میں زکٰوۃ اور صدقات کی بہت اہمیت ہے<ref>[https://archive.siasat.com/news/importance-types-and-benefits-sadaqah-part-1-1381385/ صدقات کی اقسام اور فوائد]</ref>، جس کی مثالیں مضمون میں درج کر دی گئی ہیں۔ خود ماضی میں ایک غریب خاندان سے آنے والے ناگپور کے شہری پیارے خان، جن کا مضمون میں ذکر موجود ہے، مشکل سے ایک ہفتے کے عرصے میں 45 لاکھ روپے خرچ کیے تاکہ 400 میٹرک ٹن سیال آکسیجن ناگپور شہر اور اس کے اطراف و اکناف کے سرکاری ہسپتالوں میں پہنچے۔ حالاں کہ انتظامیہ نے اس ہم درد اور وقت پر مدد پہنچانے والے شخص کو یہ تیقن دیا کہ ان کے جملہ اخراجات جلد ادا ہوں گے، تاہم انھوں نے کچھ بھی مال و دولت لینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اس خرچ کو اپنے سالانہ فریضۂ زکٰوۃ کی ادائیگی سے جوڑ دیا اور مالی مطالبے سے دستبرداری اختیار کی۔ اسی طرح کی کئی دیگر مثالیں درج کی جا چکی ہیں جو مضمون میں درج ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے جو مہاراشٹر ایچل کرنجی کے چھوٹے سے علاقے کے مسلمانوں کے طبقے سے تعلق رکھتی ہے، جس میں مسلمانوں نے زکٰوۃ کے طور پر 36 لاکھ روپے کا عطیہ جمع کر کے مقامی اندرا گاندھی میموریل ہسپتال کے حوالے کیا تاکہ اس ہسپتال میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے انٹینسیو کیئر یونٹ قائم ہو۔ یہ وہ اقدام تھا جس کے لیے مہاراشٹر کے وزیر اعلٰی ادھو ٹھاکرے کی جانب سے زبر دست داد تحسین دی جا چکی ہے۔ [[سنن ترمذی]] میں یہ بھی ایک حدیث مرکوز ہے جس کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن ایک مومن کا سایہ اس کا صدقہ ہے۔ اسی طرح کی کئی تعلیمات قرآن میں وارد ہیں۔<ref>[https://www.islamic-relief.org.uk/islamic-resources/charity-in-islam/ اسلام میں صدقہ]</ref> غیر معمولی خیر خیرات کا جذبہ جو عظیم پریم جی اور یوسف خواجہ حمید کے بے مثال عطایا ، لکھنؤ کی واحد بریانی کے مالکین کا ویجی ٹیرین بریانی نقل مقام مزدوروں کو مفت فراہم کرنے کا جذبہ، اپنی قیمتی کار کو فروخت کر کے آکسیجن فراہم کرنے والے ممبئی کے ایک شخص، اپنے آٹو کو مفت ایمبولنس میں والے آٹو ڈرائیور اور اس قسم کی کئی مثالیں اس مضمون میں درج ہیں، جو اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں اسلام نے خدمت خلق کا جذبہ آج کے اس مذہب ہیزاری اور دہریت پسندی کے دور میں اپنے پیرو کاروں کے دل میں ڈالنے میں کامیاب رہا ہے۔ نیز قوم پرستی اور حب الوطنی کی سب سے واضح علامت تو یہی ہو سکتی ہے کہ اہل وطن کو عند الضرورت ہم وطنوں کی مدد میں پیش پیش رہیں۔ اس بارے کئی مثالیں مضمون میں درج ہیں کہ مسلمانوں نے بغیر کسی مذہبی دیوار کا خیال کیے حسب حیثیت پریشان حال لوگوں کی مدد کی ہے، انفرادی بھی اور تنظیمی سطح پر بھی۔ مصیبت کے وقت مسلم ممالک کا بھی جوشیلے انداز میں بھارت کی مدد کے لیے آگے آنا یہ دکھاتا ہے کہ انسانیت اور انسانی ہمدردی کا جذبہ صرف ملکی مسلمانوں تک محدود نہیں رہا ہے ہلکہ غیر ملکی مسلمان حکومتیں بھی مدد کے اپنے جذبے کے ساتھ آگے آ چکے ہیں۔ حکومتوں کے علاوہ کئی مسلمان اپنے طور پر بھی بھارت کے عام لوگوں کی خیریت کو لے کر بلا لحاظ مذہب فکر مند رہے ہیں اور انھوں نے اپنی حکومت سے مدد کی بھی در خواست کی ہے، جس کے لیے ٹویٹر اور فیس بک جیسے سماجی میڈیا کا سہارا لیا گیا۔