"یہودی تاریخ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← انھیں؛ تزئینی تبدیلیاں |
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5 |
||
سطر 172:
638 ء میں [[بازنطینی سلطنت]] نے [[سرزمین شام|ارض شام]] کاتسلط کھو دیا۔ [[عمر بن خطاب|خلیفہ ثانی عمرؓ]] کی قیادت میں [[خلافت راشدہ]] نے یروشلم اور [[بین النہرین]]، شام، فلسطین اور مصر کی سرزمین کو فتح کیا۔ بطور سیاسی نظام ، اسلام نے یہود کی معاشی، سماجی اور فکری ترقی کے لیے یکسر نئے حالات پیدا کیے تھے۔ <ref>Ehrlich, Mark. ''Encyclopedia of the Jewish Diaspora: Origins, Experiences, and Culture, Volume 1''. ABC-CLIO, 2009, p. 152.({{ISBN|978-1851098736}})</ref>خلیفہ عمرؓ نے یہود کو 500 سال کے وقفے کے بعد [[بيت المقدس|بیت المقدس]] میں اپنی موجودگی دوبارہ قائم کرنے کی اجازت دی۔<ref name="Bashan, Eliezer 2007">{{cite EJ|last=Bashan|first=Eliezer|volume=15|page=419}}</ref> یہودی روایات [[عمر بن خطاب|خلیفہ عمرؓ]] کو ایک مہربان حکمران مانتی ہے اور [[مدراش]] انھیں "اسرائیل کا دوست" قرار دیتی ہے۔<ref name="Bashan, Eliezer 20072" />
عرب جغرافیہ دان [[المقدسی]] کے مطابق، یہود نے معاشرے میں "سکوں کے پارکھ،دباغ اور صراف" کے طور پر کام کیا۔<ref name="SKatz" /> [[دولت فاطمیہ|فاطمی]] دور میں، بہت سے یہود نے بطور حکومتی حکام خدمات انجام دیں۔<ref name="SKatz2">{{cite web|url=http://www.eretzyisroel.org/~samuel/presence.html|title=Continuous Jewish Presence in the Holy Land|author=Joseph E. Katz|year=2001|publisher=EretzYisroel.Org|access-date=August 12, 2012|archive-date=2021-01-25|archive-url=https://web.archive.org/web/20210125175116/http://www.eretzyisroel.org/~samuel/presence.html|url-status=dead}}</ref> پروفیسر [[موشےِ گل]] کا خیال ہے کہ 7ویں صدی ءمیں عربوں کی فتح کے وقت، آبادی کی اکثریت عیسائی اور یہودی تھی۔<ref>Moshe Gil, ''A History of Palestine: 634–1099'' pp. 170, 220–221.</ref>
اس دور میں تمام تر یہودقدیم بابل والے علاقوں کے ترقی پزیر طبقات میں شمار ہوتے تھے۔ جیونیم دور (650-1250 ء) میں، بابل کی [[یشیوا]] کی درسگاہیں یہودیت سیکھنے کے اہم مراکز تھیں۔ جیونیم (یعنی "شاندار" یا "جینیئس")، جو ان درسگاہوں کے سربراہ تھے، یہودی شریعت میں بھی اعلیٰ ترین مقتدر کے طور پر تسلیم کیے گئے تھے۔
|