"بھارت میں ہجومی تشدد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
 
سطر 101:
نفرت اور تشدد کا فروغ سماجی میڈیا کے سب سے مختصر پیامات کے ارسال کی سائٹ ٹویٹر پر بھی کافی شدومد سے کیا جاتا ہے۔ جولائی 2019ء میں [[بہار (بھارت)|بہار]] کے ریاستی دار الحکومت [[پٹنہ]] میں ایک شخص اس بات پر نالاں تھا کہ ایک گائے اس کے گھر کے قریب باندھی ہوئی ہے اور وہ اس جگہ کو گندہ بھی کر چکی ہے۔ اسی غصے میں اس نے گائے پر اپنے کتے کو چھوڑا۔ یہ معاملہ ایک اور ہی رخ اختیار کر گیا جب ایک صحافی نے اپنے ٹویٹر سے یہ دعوٰی کر دیا کہ کتا دراصل ایک مسلمان شخص کا ہے۔ اس کی وجہ سے شہر کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں کشیدگی کا ماحول پھیل گیا۔ شہر کی پولیس کو متحرک ہونا پڑا اور یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ مثاہرہ گائے اور کتے کا مالک، دونوں ہندو ہیں اور یہ معاملے کو ٹویٹر کے ذریعے خواہ مخواہ ہندو مسلمان تنازع کا رنگ دینے کی کوشش تھی، حالانکہ ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔ پھر بھی یہ زہریلا ٹویٹ کم از کم 2000 بار [[باز بلاگ نگاری|ری ٹویٹ]] کیا گیا۔<ref>{{cite web |url= https://www.opindia.com/2019/07/patna-dog-bites-cow-muslim-owner-fake/|title= Bihar man unleashes his dog on cow, journalist invents Hindu-Muslim angle|last=STAFF|first= OPINDIA |date= جولائی 28, 2019|website= OpIndia|publisher= OpIndia|access-date= اگست 24, 2019|quote=However, journalist Narendra Nath, gave it a communal angle and spread fake information that the matters escalated over rumours that the dog owner was a Muslim.}}</ref>
 
جدید دور میں [[واٹس ایپ]] شخصی اور گروہی پیغامات کے ارسال کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ تاہم یہ [[فرضی خبر|بناوٹی خبروں]] کے فروغ کا بھی اہم ذریعہ بن گیا اور اس سے کئی ہجومی تشدد کے واقعات، ملک بھر میں نفرت اور قتل کے واقعات میں بھی رونما ہوئے ہیں۔ کئی لوگ محض شک اور مشتبہ افراد کی تصویروں کے گشت ہونے کی وجہ سے عوامی تشدد کی زد میں آ گئے۔ [[آسام]] سے [[تمل ناڈو]] تک ان میں سے کئی لوگ چندے میں جمع ہوئی مار پیٹ کی وجہ سے بری طرح سے زخمی ہوئے اور کئی لوگ مارے بھی گئے ہیں۔ <ref>{{cite web |url= https://thelogicalindian.com/news/fake-whatsapp-child-kidnappers/|title= From Assam To Tamil Nadu: The Fake WhatsApp Messages Of Child Kidnappers You Forwarded Have Taken Many Lives|last= Crew|first= The Logical Indian Crew |date= اگست 24, 2008 |website= The Logical Indian Crew|publisher= TLI|access-date= اگست 24, 2019|quote= It is just not Assam, the fake videos of child kidnappers have been travelling around on WhatsApp and have led to the death of many others across India. The menace started from Jharkhand and then happened in Andhra Pradesh and Telangana.|archive-date= 2019-07-28|archive-url= https://web.archive.org/web/20190728063146/https://thelogicalindian.com/news/fake-whatsapp-child-kidnappers/|url-status= dead}}</ref>
<ref>{{cite web |url= https://www.npr.org/2018/07/18/629731693/fake-news-turns-deadly-in-india|title= Viral WhatsApp Messages Are Triggering Mob Killings In India|last= Frayer|first= Lauren |date= جولائی 18, 2018 |website= این پی آر ڈاٹ او آر جی|publisher= این پی آر|access-date= 24 اگست 2019|quote=Her husband recently was forwarded a video that shows a child's mutilated body. It's unclear where or when the video is from, or whether it has been doctored. A voice implores people to forward it to others, and to stay vigilant — that kidnappers are on the loose.}}</ref>
 
سطر 613:
|website= روزنامہ جاگرن کی ویب گاہ}}</ref> یہ معاضہ بہت ہی حادثاتی اور غیر فطری موتوں کے وقت اعلان کردہ معاوضوں سے کافی کم ہے۔ مثلًا [[2016ء]] میں پڑوسی ریاست [[بہار (ریاست)|بہار]] کے وزیر اعلٰی [[نیتیش کمار]] نے زہریلی شراب کی وجہ سے ہونے والی اموات کے لیے اس سے دگنا، یعنی چار لاکھ روپیے کے معاوضے کا اعلان کیا تھا۔ <ref>{{Cite web|url=https://scroll.in/latest/814330/gopalganj-tragedy-victims-kin-to-get-rs-4-lakh-if-spurious-alcohol-claims-confirmed-nitish-kumar|title=Gopalganj tragedy victims' kin to get Rs 4 lakh if spurious alcohol claims confirmed: Nitish Kumar|website= اسکرول ڈاٹ اِن}}</ref>
 
[[9 ستمبر]] 2019ء میں اخبارات میں چھپی اطلاعات کے مطابق جھارکھنڈ پولیس نے نے اپنے فرد جرم (چارج شیٹ) سے 11 ملزموں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت قتل کی بات ہٹا دی۔ اس کے پس پردہ آخری دستیاب پوسٹ مارٹم رپورٹ میں مذکور موت کی بیان کردہ وجہ قرار دی گئی جس جو "قلبی دھڑکن کا رکنا" (“cardiac arrest”) ہے۔ پولیس کی گذشتہ ماہ کا فرد جرم، جو اب منظر عام پر آیا ہے، فرد جرم کو دفعہ 304 کے تحت اندراج کی بات کرتا ہے (قابل سزا انسانوں کی موت جو قتل کے زمرے میں نہیں آتی)۔ اس سے قبل پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں قتل کے الزامات عائد کیے تھے جو انصاری کی بیوہ شائستہ کے زبانی بیان پر مبنی تھا۔ اپنے موقف کی تبدیلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے سرائے کیلا کار ساوان کے پولیس سُپر اِنٹنڈنٹ نے وجوہ بیان کیے تھے: ایک، انصاری فوری انتقال نہیں کر گیا اور گاؤں والے اس کو مار ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ دوسرے یہ کہ پوسٹ مارٹم میں قلبی دھڑکن کے رکنے کو موت کی وجہ بتانا اور یہ انکشاف کہ سر سے خون کا بہنا اس معاملے میں جان لیوا نہ ہونا۔ پولیس سُپر اِنٹنڈنٹ نے حالانکہ اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ ایک دوسری طبی رائے یہ بھی ہے کہ موت کی وجہ قلبی دھڑکن کے رکنے اور سر سے خون بہنے، دونوں کا مجموعی نتیجہ ہے۔<ref>{{Cite web|url=https://www.msn.com/en-in/news/newsindia/police-chargesheet-drops-murder-charge-against-11-accused-in-tabrez-killing/ar-AAH2Unc|title=olice chargesheet drops murder charge against 11 accused in Tabrez killing|website= ایم ایس این ڈاٹ کام بحوالہ دی انڈین ایکسپریس}}</ref> کئی مبصرین اور صحافت کے ایک گوشے نے پولیس کے اس فیصلے پر تعجب کا اظہار کیا۔ دی لوجیکل انڈین ویب گاہ نے واضح تبصرہ کیا کہ باوجود اس کے بصری شواہد اور سیکڑوں افراد کا عینی مشاہدہ موجود تھا کہ تبریز کو گھنٹوں مارا پیٹا گیا تھا، تعزیرات ہند کی دفعہ 302 سے معاملہ ہٹا دیا گیا جس میں قتل کی کوشش لکھی ہوتی ہے۔ ویب گاہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ معاملے میں 11 ملزمان اب آزادانہ گھوم پھِر سکتے ہیں۔<ref>{{Cite web|url=https://thelogicalindian.com/news/tabrez-ansari-accused-acquitted/|title=11 Accused Of Killing Tabrez Ansari Go Scot-Free, Jharkhand Police Drop Murder Charges|website= دی لوجیکل انڈین|access-date=2019-09-16|archive-date=2019-09-16|archive-url=https://web.archive.org/web/20190916115914/https://thelogicalindian.com/news/tabrez-ansari-accused-acquitted/|url-status=dead}}</ref> اس سلسلے میں پولیس کی کار روائی تبریز انصاری کی بیوہ شائستہ نے کہا کہ "میرے شوہر کو ایک ہجوم نے قتل کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ پورا معاملہ دفعہ 302 (قتل کی کوشش) کے تحت درج تھا مگر بعد میں یہ دفعہ 304 (قابل سزا اسانی جان کا نقصان) کے تحت انتظامیہ کے اثر کی وجہ سے درج کیا گیا۔" شائستہ کے ایک رشتے دار محمد محبوب نے اس پر پوری کار روائی کو مجرموں کی پردہ پوشی کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ اہل خانہ اس پورے معاملے کی [[سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن|سی بی آئی]] کی جانب سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔<ref>{{Cite web|url=https://www.rediff.com/news/report/tabrez-lynching-couldnt-make-murder-case-says-cop/20190911.htm|title=Tabrez lynching: Murder case couldn't be made, says cop|website= ریڈیف ڈاٹ کام}}</ref>
 
;سماجی میڈیا پر اس موت کی گفتگو اور اس سے جڑی بحثیں