"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 7:
 
2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔
 
==کعب بن اشرف یہودی کا واقعہ ==
 
اس کا واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے۔ کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثےے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے ۔ اسکا سب سے بڑا فتنہ یہ تھا کہ یہ قریش کے کفار کو مسلمانوں کے جنگ کرنے کے لیے ابھارتا تھا، اور اگر وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جاتا تو اس سے مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوتا۔ اس لیے اس کی شرارتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے مجبوراً ماہ ربیع الاول سنہ3 ہجری میں یہ قدم اٹھایا گیا۔
 
چنانچہ رسول اللہ (ص) کے حُکم پر سعد بن معاذ نے لوگوں کو جمع کیا اور پھر محمد بن مسلمہ اور چند مجاہدین کو اسکے پاس روانہ کیا گیا۔ انہوں نے اسکے پاس جا کر پہلے رسول اللہ (ص) کی (معاذ اللہ) برائیاں شروع کر دیں تاکہ اسے بھلا پھسلا کر اسکے گھر اور قوم سے دور لے جائیں، اور پھر موقع ملتے ہی اسے قتل کر دیا۔
 
مدینہ اور خیبر اور آپس پاس کے علاقوں میں ایسے کئی کفار و یہودی تھے جو رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے، مگر کعب بن اشرف یہودی کو یہ خطرہ مول لے کر اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ اسکی "عملی" سازشوں سے مسلمانوں کو جانی خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور اسکے اکسانے کی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام کے خلاف ہوتے جا رہے تھے۔
 
اور آخر میں یہ بات ذہن میں رکھئیے کہ کعب بن اشرف نے جب پہلی مرتبہ گستاخی رسول کی تو اس پہلی مرتبہ پر ہی اس کو قتل کرنے کے لیے مجاہدین کو روانہ نہیں کیا گیا، بلکہ کعب بن اشرف نے رسول اللہ (ص) کو بُرا بھلا کہنا اپنی "عادت" اور "معمول" بنائی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس لحاظ سے بھی موجودہ آرڈیننس کی یہ تعبیر ہر لحاظ سےغلط ہے کہ کوئی غیر مسلم اگر غصے میں آ کر کوئی چھوٹی موٹی بات بھی غلطی سے منہ سے نکال دے تو فورا اُس پر قتل کا فیصلہ صادر کر دو۔
 
==ابو رافع یہودی کا واقعہ ==