"کیبنٹ مشن پلان، 1946ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 21:
2۔ [[برطانوی ہند]] اور ریاستوں کے نمائندوں کے باہمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ہر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ پیدا ہونے کا امکان ہو، کو فیصلہ کرنے کے لیے ہر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔
 
4۔ پلان ہذا کے مطابق برطانوی ہند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ گروپ الف میں ہندو اکثریت صوبے اُڑیسہ ، بہار ، بمبئی ، سی پی ، مدراس اور یو۔ پی ۔ گروپ ب میں شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب ، صوبہ سرحد، اورسندھاور[[سندھ]] جبکہ گروپ ج میں شمال مشرق میں مسلم آبادی کے صوبے [[بنگال]] اور[[ آسام]] شامل کیے گئے۔
 
5۔ خارجہ امور ، دفاع اور مواصلات کے شعبوں کے علاوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔
سطر 27:
6۔ کل ہند یونین کے آئین اور ہر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ہوگی جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ شق ہذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں ، توکل ہندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔
 
7۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں الاٹ کرنے کے لیے کہا گیا ۔ ہر دس لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی۔ [[برطانوی ہند]] کے گیارہ صوبوں کو کل دو سو نوے نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اٹھہتر مسلمانوں کے لیے مقرر کی گئیں اسی طرح ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ تریانو 93 نشستیں دی گئیں
 
منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے [[کیبنٹ مشن]] نے یہ بھی شرط عائد کر دی کہ جو بھی سیاسی پارٹی اس پلان کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی جائے گی۔