"جنگ جمل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 52:
سبائیوں کی خطوط مہم سے بہت سی غلط فہمیاں جنم لے چکی تھیں۔ بعض مخلص اور غیر جانبدار مسلمانوں نے مصالحت کی کوششیں شروع کر دیں اور جلد ہی یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ تھی کہ نہ تو علی رضی اللہ تعالی عنہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو سزا دینے کے خلاف تھے اور نہ ہی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ، طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے کوئی ذاتی عزائم تھے۔ امن معاہدہ ہوگیا اور دونوں طرف کے لوگ پہلی بار سکون کی نیند سوگئے۔ بظاہر ابن سبا کے کھیل کی بساط الٹ چکی تھی۔ مگر وہ حوصلہ ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ رات کے آخری پہر اس کے کچھ آدمی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کیمپ میں داخل ہوگئے اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج پر حملہ کردیا۔ قدرتی طور پر علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کیمپ میں یہی سمجھا گیا کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور دھوکہ سے حملہ کردیا ہے۔ تاہم جلد ہی ان کے فوجیوں نے صورتحال پر قابو پا لیا۔ ادھر عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کیمپ کو گمان ہوا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس ساری صورتحال میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انتہائی جرأت مندی سے صورتحال کا مقابلہ کیا اور آخر تک اپنی اونٹنی پر سوار رہیں۔جمل کا مطلب ہے اونٹ اور اسی لیے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں ۔ لڑائی کے دوران علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گرد گھیرا ڈال دیا اور عملاً وہ مخالف فوج کی حراست میں آگئیں۔ ان کے آدمی موقع سے فرار ہوگئے۔حضرت علی نے ان پر غلبہ پانے کے بعد اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ وہ بلبلا کر بیٹھ گئی ۔ اس کے بعد جب صورتحال واضح ہوئی تو بہت دیر ہوگئی تھی۔ اس موقع پر عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے حریف معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف مدد کی پیشکش کی تاہم علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انتہائی احترام سے ان کی پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ واپس مدینہ تشریف لے چلیں اوران کی شایانِ شان واپسی کے انتظامات بھی کر دئیے۔یہ لڑائی کوفہ کے باہر [[خریبہ]] کے مقام پر ہوئی تھی۔
انہی دنوں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا ایک خط مشتہر ہوگیا جس میں انہوں نے لوگوں کو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بغاوت پر بھڑکایا تھا۔ شہادتِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد جب یہ خط ان کےعلم میں آیا تو انہوں نے کہا: " قسم اس ذات کی جس پر ایمان لانے والے یقین رکھتے ہیں اور فتنہ گر انکار کرتے ہیں، میں نے اس جگہ بیٹھنے تک کبھی ان لوگوں کو کچھ نہیں لکھا<ref>ابن سعد، 1/3 صفحہ 57</ref>)۔ طبری کی روایت یہ ہے کہ انہوں نے کہا "اگر آپ کو(ناجائز) کوڑا بھی مارا جائے تو میں اس کی حمایت نہیں کرسکتی۔ کیا میں اس ناجائز تلوار کی حمایت کرسکتی ہوں جس سے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا۔ آپ لوگوں نے ان پر الزام لگائے لیکن جب آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ پاک صاف چینی کی طرح پاکیزہ ہیں اور ان کا کردار دھلے ہوئے کپڑے کی طرح بے داغ ہے تو تم لوگوں نے انہیں قتل کردیا۔ مسروق کی روایت ہے کہ انہوں نے کہا "ام المومنین! یہ آپ ہی تھیں جنہوں نے لوگوں کو خط لکھ کر ان کے خلاف کھڑا کیا تو انہوں نے فرمایا "میں قسم کھاتی ہوں اس ذات کی جس پر ایمان لانے والے یقین رکھتے ہیں اور فتنہ گر انکار کرتے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کو کبھی کچھ نہیں لکھا۔ الاعمش مزید روایت کرتا ہے کہ " اس طرح لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کے نام سے جعلی خطوط لکھے گئے"۔
 
==واقعہ جمل==
حضرت علی کے اور حضرت عائشہ دونوں اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ پہلے امن و امان قائم ہوجائے پھر حضرت عثمان کا قصاص لیا جائے۔ مگر جن لوگوں کو ان کی مصالحت کی وجہ سے اپنی جان کا خطرہ تھا، وہ دونوں کو لڑانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ لڑائی کوفہ کے باہر [[خریبہ]] کے مقام پر ہوئی اس میں [[حضرت طلحہ]] و [[زبیر ابن العوام|حضرت زیبر]] قتل ہوئے اور کوئی دس ہزار مسلمان کام آئے {{حوالہ درکار}}۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ ایک اونٹنی پر سوار تھیں۔ (جمل کا مطلب ہے اونٹ اور اسی لیے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں) ۔ حضرت علی نے ان پر غلبہ پانے کے بعد اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ وہ بلبلا کر بیٹھ گئی ۔ تو حضرت عائشہ کی فوج کو شکست ہوئی۔ حضرت علی نے حضرت عائشہ کو بڑے احترام کے ساتھ مدینہ روانہ کر دیا۔ اس جنگ میں حضرت ابوبکر کے بیٹے یعنی حضرت عائشہ کے بھائی [[محمد بن ابی بکر]] جو حضرت علی کے قریبی اور پیارے صحابی تھے، حضرت علی کی طرف سے اپنی بہن کے خلاف لڑے۔
 
== نتائج ==