"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: القاب)
(ٹیگ: القاب)
سطر 90:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
 
جہاد کے آداب اور ذمہ داریاں
تحریر علامہ محمد یوسف جبریلؒ
دشمن پر پینترے بدل بدل کر وار کرتے رہو اور اسے سنبھلنے کی مہلت نہ دو اور اگر کبھی خدانخواستہ تمہیں چشم زخم بھی لگ جائے تو ہمت نہ ہارو اور بد دل نہ ہو جاؤ ۔ کیونکہ دشمن نے بھی اس مقابلے میں کافی نقصان اٹھایا ہو گا اور اس کا بھی جوڑ جوڑ درد کر رہا ہو گا ۔ دشمن پر اس شدت سے بوجھ ڈالو اور اتنا بھر پور حملہ کرو اور اس طرح پئے در پئے حملے کرو کہ حوصلہ چھوڑ دے اور بوکھلا جائے ۔ مسلمانوں کے شکست کھا کر دوبارہ جنگ پر آمادگی ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے بہت پسند کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول ﷺ کے کہنے کو مان لیا بعد اس کے کہ ان کو چشم زخم لگ چکا تھا ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔ یہ واقع جنگ احد کا ہے جس میں مسلمانوں کو چشم زخم لگا ۔اور پھر تعاقب کے متعلق فرمایا ’’ مخالف قوم کے تعاقب میں ہمت نہ ہارو اگر تمھیں دکھ پہنچا تو وہ بھی دکھ اٹھائے ہوئے ہیں جیسے تم دکھ اٹھائے ہوئے ہو اور تم اللہ سے وہ امید لگائے ہوئے ہو جو وہ نہیں رکھتے ‘‘۔ یعنی تم کو تو اللہ کی نصرت اور آخرت کی بہتری کی توقع ہے اور تمہارے دل مضبوط ہیں حالانکہ وہ تو اس بات سے عاری ہیں ۔
حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے ۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لئے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کئے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لئے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لئے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔
جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انہوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا ۔ اے محمد ؑ ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں ۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا ۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم !میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں ۔ اللہ نے تمہارے لئے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ ۔ ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمہیں دے چکے ‘‘۔ ایک دفعہ سفر جہاد میں کچھ لوگوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا ۔آپ ﷺکو خبر ہوئی تو دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا ۔ ’’لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ‘‘۔
فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا ، کھیتوں کو تباہ کرنا ، بستیوں میں قتل عام کرنا اور آتش زنی کرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ ۲۵ ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔
اسلام دنیا میں آسودگی ، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے ۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے ۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیاگیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی ، اخلاقی ، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو ۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ’’ اور جن اہل کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی ۔ (اللہ نے ) انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھا دیا پھر بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا اور تمہیں مالک بنا دیا ۔ ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ( الاحزاب ۲۶ ۔ ۲۷ ) اہل کتاب سے مراد یہاں یہود بنی قریظہ ہیں جو حوالیء مدینہ میں اپنے بڑے بڑے اور مضبوط قلعوں اور گڑھیوں میں قلعہ بندرہا کرتے تھے اور اس وقت تک مسلمانوں سے معاہدہ کئے ہوئے ان کے حلیف تھے بعد کو عہد شکنی کرکے قتل و اسارت دونوں کے مستحق پائے۔ اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا ہے کہ اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے یہ ایک پیشینگوئی ہے جواللہ تعالیٰ نے فرما دی ۔ یہ اشارہ ہے قبائل یہود کی ساری زمینوں اور جائیدادوں کی طرف جو بالآخر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور ان لفظوں کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔قیامت تک جو علاقہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔سب اس میں داخل ہے ۔
 
علامہ محمدیوسف جبریل
یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
قائد اعظم سٹریٹ ، نواب آباد واہ چھاؤنی ضلع راولپنڈی پاکستان
www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
 
{{نامکمل}}