"طبیعیات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 25:
 
=== <sup>'''قرون وسطی کی اسلامی دنیا میں طبیعیات'''</sup> ===
 
قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات میکانیات اورحرکیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت اور سمتی رفتار کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے علم پیمائش، کرہ ہوائی،کثافت، کشش ثقل، اوزان، سمتی رفتار، کشش ثقل، اور زمان ومکان جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح میکانیات اور حرکیات کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔ ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی حرکیات میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے گلیلیو سے بھی پہلے قوت ثقل کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح معیار حرکت کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے لیور/بیرم پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں لبر کراٹونس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی میکانکی آلات اور پرزہ جات وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔ علم بصریات کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیرمعمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب آن آپٹکس آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عدسہ کی کلاں نمائی طاقت کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے مکبر عدسہ کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کردیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا عصب بصری اور دِماغ کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ اقلیدس اور کیپلر کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف وٹیلو روجر بیکون اور پیکہام جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں کیپلراور نیوٹن کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام روشنی، سمتی رفتار، عدسہ، فلکیاتی مشاہدات، موسمیات اور تاریک عکسالہ/کیمرہ وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوِینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔
 
=== <sup>'''کلاسیکی طبیعیات'''</sup> ===