"فرض کفایہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م صفائی بذریعہ خوب, typos fixed: کیلئے ← کے لیے |
م درستی املا |
||
سطر 6:
[[جہاد فی سبیل اللہ]]، عام حالات میں '''فرض کفایہ''' ہے اگر ایک جماعت اس فرض کو انجام دے رہی ہے تو دوسروں کو اجازت ہے کہ وہ دیگر کاموں میں دینی خدمت انجام دیں، البتہ اگر کسی وقت [[امام المسلمین]] ضروری سمجھ کر اعلان عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکت جہاد کی دعوت دے تو پھر سب پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے قرآن کریم نے سورۂ توبہ میں ارشاد فرمایا : ’’ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ‘‘ اے مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل ہوجاتے ہو۔
اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے، اسی طرح اگر خدانخوستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی مملک پر حملہ آور ہوں اورمدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر نہ ہو تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہوجاتا ہے اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو اس کے پاس والے مسلمانوں پر یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے، قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے [[جمہور فقہاء]] و [[محدثین]] نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔<br />
مسئلہ : اسی
مسئلہ : جس شخص کے ذمہ [[قرض]] ہو اس کے
اسی
[[شریعت]] نے [[حج]] اور [[روزہ]] اور [[زکوٰۃ]] اور [[عدت]] وغیرہ کا مدار [[قمری]] حساب پر رکھا ہے حج اور زکوٰۃ میں قمری حساب کا اعتبار ہے [[شمسی]] حساب کا اعتبار نہیں شریعت میں مہینہ اور سال قمری ہی معتبر ہے اور اس کا استعمال مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ ہے اگرچہ دنیوی معاملات میں شمسی حساب کا استعمال جائز ہے لیکن اگر سب کے سب قمری حساب کوترک کردیں تو گناہ گار ہوں گے جیسا کہ فرض علی الکفایہ کا حکم ہے۔<ref>تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندہلوی،سورۃ البقرہ،آیت189</ref><br />
اگر کوئی دوسرا گواہ نہ ہو تو شہادت دینا اس گواہ کے لیے فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ ہے<ref>تفسیر مظہری قاضی ثناءاللہ پانی پتی ،سورۃ البقرہ۔آیت282</ref><br />
و لتکن منکم امۃ اور تم میں سے بعض لوگوں کی ایک جماعت ہونی
ابتداء میں سَلَامٌ عَلَیْکَ کرنا سنت کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے جماعت میں سے ایک شخص نے بھی سلام کرلیا تو کافی ہے اگر نہ کیا تو ایک سنت کا ترک ہوا اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت میں سے ایک شخص نے بھی جواب دے دیا تو سب کے ذمہ سے فرض ادا ہوگیا۔ ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔<ref>تفسیر احسن التفاسیر ۔ حافظ محمد سید احمد حسن،النساء،86</ref>
== حوالہ جات ==
|