"وحدت الوجود" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م صفائی بذریعہ خوب
م صفائی بذریعہ خوب, replaced: عیسائی ← مسیحی (2)
سطر 3:
'''وحدت الوجود''' ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس عقیدے کا اسلام کی اساس سے کوئی تعلق نہیں ، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور اکثر مسلمان علماء اس عقیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ اس عقیدے کی ابتدا مسلم صوفیا کے یہاں سے ہوئی اس لیے اسے اسلام سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔
 
مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے، اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہو جاتے ہیں، اس عقیدے کو “وحدت الشہود“ یا '''فنا فی اللہ''' کہاجاتاہے، عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے۔ ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ '''انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے''' یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کو اور عیسائیمسیحی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء) قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام=کتاب التوحید| صفحہ=70-71|مصنف=مولانا اقبال کیلانی |ناشر=حدیث پبلیکیشنز،2شیش محل روڈ لاہور}}</ref>
 
مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتا ہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔ <ref>{{حوالہ کتاب|نام=شریعت وطریقت|جلد=1|باب=2۔دین طریقت کے نظریات وعقائد|صفحہ=63-64|مصنف=مولانا عبد الرحمن کیلانی|ناشر=مکتبۃ السلام۔سٹریٹ20 وسن پورہ لاہور}}</ref>
سطر 51:
== تنقید==
ڈاکٹر ابوعدنان سہیل اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
عقیدۂ وحدت الوجود کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ تثلیث ہی کی بدلی ہوی شکل ہے۔ عیسائیمسیحی کہتے ہیں کہ اللہ، روح القدس اور عیسی علیہ السلام ایک ہیں، اور گمراہ مسلمان کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ ہے۔
کم علم زاہدوں اور عبادت گزاروں نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عابد اور معبود، خالق اور مخلوق اور حق اور باطل کے مطلب ہی کو سرے سے بدل دیا، ان کے نزدیک جو کچھ دکھائی دیتا ہے، وہ اللہ تعالٰی ہی کے مختلف مظاہر ہیں اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ادیان و مذاہب رب تک پہنچنے کے مختلف بر حق راستے ہیں۔ ایسے ہی ایک کم علم زاہد کا قول ہے: چونکہ ہر شئے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اسی کی جلوہ گاہ ہے، ہر شئے سے وہی ظاہر ہورہاہے، اس لیے ہر انسان مظہر{{زیر}} ذات الہی ہے اور اس کی صفات انسان میں جلوہ گر ہیں ۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی اللہ جلوہ گر ہے، اس لیے صوفی، جملہ انسانی افراد کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتاہے، اسی لیے مسجد کے علاوہ گرجے، صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام=اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات|مصنف= ڈاکٹر ابوعدنان سہیل}}</ref>