"شرک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م صفائی بذریعہ خوب, replaced: عیسائی ← مسیحی (3)
سطر 26:
(2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا ؕ
 
'''نکاح نہ کرو مشرکوں سے یہاں تک کہ ایمان لے آویں۔'''<ref name="پ2،البقرۃ:221">(پ2،البقرۃ:221)</ref>
 
(3) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ
 
'''مومن غلام مشرک سے اچھاہے۔'''<ref>( name="پ2،البقرۃ:221)<"/ref>
 
(4) مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعْمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ بِالْکُفْرِؕ
سطر 36:
'''مشرکوں کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجد یں آباد کریں اپنے پر کفر کی گواہی دیتے ہوئے ۔'''<ref>(پ10،التوبۃ:17)</ref>
 
ان آیات میں شرک سے مرادہر کفر ہے کیونکہ کوئی بھی کفر بخشش کے لائق نہیں اور کسی کافر مرد سے مومنہ عورت کا نکاح جائز نہیں او رہر مومن ہر کافر سے بہتر ہے خواہ مشرک ہو جیسے ہند و یا کوئی اور جیسے یہودی ، پارسی ، مجوسی۔
 
دوسرے معنی کا شرک یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا کفر سے خاص ہے کفر اس سے عام یعنی ہر شرک کفر ہے مگر ہر کفر شرک نہیں۔ جیسے ہر کوا کالا ہے مگر ہر کا لا کو انہیں۔ ہر سوناپیلا ہے مگر ہر پیلا سونانہیں ۔ لہٰذا دہر یہ کافر ہے مشرک نہیں اور ہند ومشرک بھی ہے کافر بھی۔ قرآن شریف میں شرک اکثر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے
سطر 66:
'''خدا کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے کہ تم کورب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔'''<ref>(پ19،الشعرآء:97)</ref>
 
اس برابر جاننے کی چند صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو خدا کا ہم جنس مانا جائے جیسے عیسائیمسیحی عیسی علیہ السلام کو اور یہودی عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے چونکہ اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی بلکہ باپ کی ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ماننے والا مشرک ہوگا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
 
(1) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾
سطر 74:
(2) وَقَالَتِ الْیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیۡحُ ابْنُ اللہِ
 
'''یہودی بولے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائیمسیحی بولے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ۔'''<ref>(پ10،التوبۃ:30)</ref>
 
(3) وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا ؕ اِنَّ الْاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾
سطر 98:
ان جیسی بہت سی آیتوں میں اسی قسم کا شرک مراد ہے یعنی کسی کو رب کی اولاد ماننا دوسرے یہ کہ کسی کو رب تعالیٰ کی طر ح خالق مانا جائے جیسے کہ بعض کفار عرب کا عقیدہ تھا کہ خیر کا خالق اللہ ہے اور شرکا خالق دوسرا رب ،اب بھی پارسی یہی مانتے ہیں
 
خالق خیر کو'' یزداں'' اور خالق شر کو ''اہر من ''کہتے ہیں ۔ یہ وہی پرانا مشر کا نہ عقیدہ ہے یا بعض کفار کہتے تھے کہ ہم اپنے برے اعمال کے خود خالق ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بری چیزوں کا پیدا کرنا براہے لہٰذا اس کا خالق کوئی اور چاہیے اس قسم کے مشرکوں کی تردید کے لیے یہ آیات آئیں۔ خیال رہے کہ بعض عیسائیمسیحی تین خالقوں کے قائل تھے جن میں سے ایک عیسی علیہ السلام ہیں ان تمام کی تردید میں حسب ذیل آیات ہیں۔
 
(1) وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾
سطر 126:
(6)لَوْکَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَت
 
'''اگر زمین وآسمان میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بگڑجاتے۔َا''' <ref> (پ17،الانبیآء:22)</ref>
 
(7) ہٰذَا خَلْقُ اللہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ
سطر 180:
== شرک کی پانچویں قسم ==
 
یہ عقیدہ ہے کہ ہر ذرہ کا خالق ومالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر وہ اتنے بڑے عالم کو اکیلا سنبھالنے پر قادر نہیں اس لیے اس نے مجبور اً اپنے بندوں میں سے بعض بندے عالم کے انتظام کے لیے چن لیے ہیں جیسے دنیاوی بادشاہ اور ان کے محکمے ، اب یہ بندے جنہیں عالم کے انتظام میں دخیل بنایا گیا ہے وہ بندے ہونے کے باوجود رب تعالیٰ پردھونس رکھتے ہیں کہ اگر ہماری شفاعت کریں تو رب کو مرعوب ہوکر ماننی پڑے اگر چاہیں تو ہماری بگڑی بنادیں، ہماری مشکل کشائی کردیں،جو وہ کہیں رب تعالیٰ کو ان کی ماننی پڑے ورنہ اس کا عالم بگڑجاوے جیسے اسمبلی کے ممبرکہ اگر چہ وہ سب بادشاہ کی رعایا تو ہیں مگر ملکی انتظام میں ان کو ایسا دخل ہے کہ ملک ان سب کی تدبیر سے چل رہا ہے ۔ یہ وہ شرک ہے جس میں عرب کے بہت سے مشرکین گرفتا ر تھے اور اپنے بت ودّ ، یغوث، لات ومنات وعزی وغیرہ کو رب کا بندہ مان کر اور سارے عالم کا رب تعالیٰ کو خالق مان کر مشرک تھے ۔ اس عقیدے سے کسی کو پکارنا شرک ، اس کی شفاعت ماننا شرک، اسے حاجت روا مشکل کشا ماننا شرک ، اس کے سامنے جھکنا شر ک، اس کی تعظیم کرنا شرک ، غرض کہ یہ برابری کا عقیدہ رکھ کر اس کے ساتھ جو تعظیم وتو قیر کا معاملہ کیا جاوے وہ شرک ہے ۔ ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے
 
وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾
سطر 252:
اس آیت میں بھی مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ ہمارے بت دھونس کی شفاعت کریں گے کیونکہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ اس کی مِلک میں او رعالم کاکام چلانے میں شریک ہیں ۔
 
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کا شرک ایک ہی طرح کا نہ تھا بلکہ اس کی پانچ صورتیں تھیں:
 
'''(۱)خالق کا انکار اور زمانہ کو مؤثر ماننا (۲) چند مستقل خالق ماننا (۳) اللہ کو ایک مان کر اس کی اولاد ماننا (۴) اللہ کو ایک مان کر اسے تھکن کی وجہ سے معطل ماننا (۵) اللہ کو خالق و مالک مان کر اسے دوسرے کا محتاج ماننا ،جیسے اسمبلی کے ممبر، شاہان موجودہ کیلئے اور انہیں ملکیت اور خدائی میں دخیل ماننا ۔''' ان پانچ کے سوا اور چھٹی قسم کا شر ک ثابت نہیں۔
سطر 262:
'''جواب :''' دو طر ح فرق ہے کہ مشرکین خدا کے دشمنوں یعنی بتو ں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے تھے جو واقعہ میں ایسے نہ تھے اور مومنین اللہ کے محبو بوں کو شفیع او روسیلہ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ کافر ہوئے اور یہ مومن رہے جیسے گنگاکے پانی اور بت کے پتھر کی تعظیم ، ہولی، دیوالی ، بنارس ، کاشی کی تعظیم شرک ہے مگرآب زمزم ، مقام ابراہیم ، رمضان ، محرم، مکہ معظمہ ، مدینہ طیبہ کی تعظیم ایمان ہے ۔ حالانکہ زمزم اور گنگا جل دو نوں پانی ہیں۔ مقام ابراہیم اور سنگ اسود ۔ اور بت کا پتھر دونوں پتھر ہیں وغیرہ وغیرہ ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے معبودوں کو خدا کے مقابل دھونس کا شفیع مانتے تھے اور جبری وسیلہ مانتے تھے، مومن انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم کو محض بندہ محض اعزازی طور پر خدا کے اذن وعطا سے شفیع یا وسیلہ مانتے ہیں ۔ اذن اور مقابلہ ایمان وکفر کا معیا ر ہے ۔
 
'''(۲)اعتراض :''' مشرکین عر ب کا شرک صرف اس لیے تھا کہ وہ مخلوق کو فریاد رس، مشکل کشا، شفیع ، حاجت روا،دور سے پکار سننے والا، عالم غیب،وسیلہ مانتے تھے وہ اپنے بتوں کو خالق، مالک ، رازق ، قابض موت وحیات بخشنے والا نہیں مانتے تھے ۔ اللہ کا بندہ مان کر یہ پانچ باتیں ان میں ثابت کرتے تھے قرآن کے فتوے سے وہ مشرک ہوئے۔ لہٰذاموجودہ مسلمان جو نبیوں علیہم السلام ، ولیوں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے لیے یہ مذکورہ بالا چیزیں ثابت کرتے ہیں وہ انہیں کی طر ح مشرک ہیں اگر چہ انہیں خدا کا بندہ مان کر ہی کریں چونکہ یہ کام مافوق الاسباب مخلوق کے لیے ثابت کرتے تھے ،مشرک ہوئے۔
 
'''جواب :''' یہ محض غلط اور قرآن کریم پر افترا ہے۔جب تک رب تعالیٰ کے ساتھ بندے کو برابر نہ مانا جاوے ، شرک نہیں ہوسکتا۔ وہ بتوں کو رب تعالیٰ کے مقابل ان صفتوں سے موصوف کرتے تھے ۔ مومن رب تعالیٰ کے اذن سے انہیں محض اللہ کا بندہ جان کر مانتا ہے لہٰذا وہ مومن ہے ۔ ان اللہ کے بندوں کے لیے یہ صفات قرآن کریم سے ثابت ہیں ،قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔
 
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں باذن الٰہی مردوں کو زندہ ، اندھوں ، کوڑھیوں کو اچھا کر سکتا ہوں، میں باذن الٰہی ہی مٹی کی شکل میں پھونک مار کر پرندہ بنا سکتا ہوں جو کچھ تم گھر میں کھاؤیا بچا ؤ بتا سکتا ہوں ۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میری قمیص میرے والد کی آنکھوں پر لگا دو ۔ انہیں آرام ہوگا، جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا کہ میں تمہیں بیٹا دوں گا ۔ ان تمام میں مافوق الاسباب مشکل کشائی حاجت روائی علم غیب سب کچھ آگیا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام کی گھوڑی کی ٹاپ کی خاک نے بے جان بچھڑے میں جان ڈال دی،یہ مافوق الاسباب زندگی دینا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصاء دم میں لاٹھی اور دم میں زندہ سانپ بن جاتا تھا آپ کے ہاتھ کی بر کت سے، حضرت آصف آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس یمن سے شام میں لے آئے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کے فاصلے سے چیونٹی کی آواز سن لی ، حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان بیٹھے ہوئے یوسف علیہ السلام کو سات قفلوں سے بندمقفل کو ٹھڑی میں برے ارادے سے بچایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے روحوں کو حج کیلئے پکارا اور تاقیامت آنے والی روحوں نے سن لیا یہ تمام معجزات قرآن کریم سے ثابت ہیں جن کی آیات ان شاء اللہ باب احکام قرآنی میں پیش کی جائیں گی ۔ یہ توسب شرک ہوگئیں بلکہ معجزات اور کرامات توکہتے ہی انہیں ہیں جواسباب سے ورا ہو ۔ اگر مافوق الاسباب تصرف ماننا شرک ہوجاوے تو ہر معجزہ وکرامت ماننا شرک ہوگا۔ ایسا شرک ہم کو مبارک رہے جو قرآن کریم سے ثابت ہو اور سارے انبیاء و اولیاء کا عقیدہ ہو۔
 
فرق وہی ہے کہ باذن اللہ یہ چیزیں بندوں کو ثابت ہیں اور رب کے مقابل ماننا شرک ہے انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کے معجزات اور کرامات تو ہیں ہی ۔ ایک ملک الموت اور ان کے عملہ کے فرشتے سارے عالم کو بیک وقت دیکھتے ہیں او رہر جگہ بیک وقت تصرف کرتے ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
سطر 276:
(2) حَتّٰۤی اذَا جَآءَتْہُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَہُمْ
 
'''یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے قاصد آئینگے انہیں موت دینے'''<ref> (پ8،الاعراف:37)</ref>
 
ابلیس ملعون کو یہ قوت دی گئی ہے کہ وہ گمراہ کرنے کیلئے تمام کو بیک وقت دیکھتا ہے وہ بھی اور اس کی ذریت بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
سطر 285:
 
جو فرشتے قبر میں سوال و جواب کرتے ہیں، جو فرشتہ ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے، وہ سب جہان پر نظر رکھتے ہیں کیونکہ بغیر اس قوت کے وہ اتنا بڑا انتظام کرسکتے ہی نہیں اور تمام کا م مافوق الاسباب ہیں ۔ جواہر القرآن کے اس فتوے سے اسلامی عقائد شرک ہوگئے ۔ فر ق وہ ہی ہے جو عرض کیا گیا کہ رب کے مقابل یہ قوت ماننا شرک ہے اور رب کے خدام اور بندوں میں باذن الٰہی رب کی عطا سے یہ طاقتیں ماننا عین ایمان ہے ۔
 
 
 
 
 
== حوالہ جات ==
<references />
 
 
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/شرک»