"صلاح الدین ایوبی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
درستی
سطر 44:
صلاح الدین نے [[بیت المقدس]] میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کئے جو اس شہر پر قبضے کے وقت مسیحی افواج نے کئے تھے ۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے [[بیت المقدس]] میں داخل ہوا۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر مسیحی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی [[ملک عادل]] نے خود ادا کی۔
 
[[بیت المقدس]] پر فتح کے ساتھ [[یروشلم]] کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو [[فلسطین]] میں [[1099ء]] سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔آ گیا۔
 
[[بیت المقدس]] پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ [[1948ء]] میں [[ریاست ہائے متحدہ امریکہ|امریکہ]] ، [[برطانیہ]] ، [[فرانس]] کی سازش سے [[فلسطین]] کے علاقہ میں [[اسرائیل|یہودی سلطنت]] قائم کی گئی اور [[بیت المقدس]] کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ [[6 روزہ جنگ|1967ء کی عرب اسرائیل جنگ]] میں [[بیت المقدس]] پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا ۔
سطر 94:
[[ملف:Damascus-SaladinTomb.jpg|thumb|[[مسجد امیہ]] کے نواح میں قائم صلاح الدین کا مزار]]
 
[[589ھ]] میں صلاح الدین انتقال کرگئے۔کر گئے۔ اسے [[شام]] کے موجودہ دار الحکومت [[مسجد امیہ]] کے نواح میں سپرد خاک کیا گیا۔ صلاح الدین نے کل 20 سال حکومت کی۔ مورخ ابن خلکان کے مطابق ''ان کی موت کا دن اتنا تکلیف دہ تھا کہ ایسا تکلیف دہ دن اسلام اور مسلمانوں پر [[خلفائے راشدین]] کی موت کے بعد کبھی نہیں آیا''۔
 
موجودہ دور کے ایک انگریز مورخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ ''اس کے ہمعصر بادشاہوں اور ان میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور اس نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی''۔