"مثنوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17:
* سلاست و زبان و بیان - مثنوی میں عموماً ثقیل الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ چونکہ ہر شعر میں قافیہ بدلنا ضروری ہوتا ہے اس لیے شاعر کو ایک طرح سے سہولت مہیا ہوتی ہے کہ بہتر سے بہتر اور رواں و سلیس شعر کہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کئی ایک مثنویوں کے اشعار ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں جیسے میر حسن کی مثنوی "سحر البیان" کا یہ شعر
 
<center>برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن<br>
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن</center>
 
یا نواب مرزا شوق کی ایک مثنوی کا یہ شعر
 
<center>موت سے کس کو رستگاری ہے<br>
آج وہ کل ہماری باری ہے</center>
 
اور کسی مثنوی کا یہ شعر
 
<center>لائے اس بت کو التجا کر کے<br>
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے</center>
 
* کردار نگاری - ایک اچھی کہانی کی طرح، ایک اچھی مثنوی میں کردار نگاری انتہائی اہم درجہ رکھتی ہے۔ تاریخی مثنویوں تو اچھی کردار نگاری کے بغیر بے جان ہیں۔
سطر 51:
 
== مثالیں==
میر حسن کی مثنوی"سحر البیان" کے چند اشعار
 
<center>تپِ ہجر گھر دل میں کرنے لگی<br>
دُرِ اشک سے چشم بھرنے لگی
 
خفا زندگانی سے ہونے لگی<br>
بہانے سے جا جا کے سونے لگی
 
نہ اگلا سا ہنسنا، نہ وہ بولنا<br>
نہ کھانا، نہ پینا، نہ لب کھولنا
 
جہاں بیٹھنا، پھر نہ اٹھنا اسے<br>
محبت میں دن رات گھٹنا اسے
 
نہ کھانے کی سدھ اور نہ پینے کا ہوش<br>
بھرا اس کے دل میں محبت کا جوش
 
چمن پر نہ مائل، نہ گُل پر نظر<br>
وہی سامنے صورت آٹھوں پہر</center>
 
پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی "گلزارِ نسیم" کے کچھ اشعار
 
<center>منہ دھونے جو آنکھ ملتی ہوئی<br>
پُر آب وہ چشمِ حوض پر آئی
 
دیکھا تو وہ گُل ہَوا ہُوا ہے<br>
کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے
 
گھبرائی کہ ہیں کدھر گیا گل؟<br>
جھنجھلائی کہ کون دے گیا جُل؟
 
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون؟<br>
ہے ہے مجھے خار دے گیا کون؟</center>
 
مثنوی "زہرِ عشق" از نواب مرزا شوق کے اشعار
 
<center>ہو یہ معلوم تم کو بعد سلام<br>
غمِ فرقت سے دل ہے بے آرام
 
شکل دکھلا دے کبریا کے لیے<br>
بام پر آ ذرا خدا کے لیے
 
اس محبت پہ ہو خدا کی مار<br>
جس نے یوں کر دیا مجھے ناچار
 
سارے الفت نے کھو دیئے اوسان<br>
ورنہ یہ کہتی ہیں خدا کی شان
 
اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے<br>
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے</center>
 
غالب کی مثنوی "قادر نامہ" کے اشعار
 
<center>قادر اور اللہ اور یزداں، خدا<br>
ہے نبی، مُرسل، پیمبر، رھنما
 
پیشوائے دیں کو کہتے ہیں امام<br>
وہ رسول اللہ کا قائم مقام
 
ہے صحابی دوست، خالص ناب ہے<br>
جمع اس کی یاد رکھ اصحاب ہے
 
آگ کا آتش اور آذر نام ہے<br>
اور انگارے کا اخگر نام ہے
 
استخواں ہڈّی ہے اور ہے پوست کھال<br>
سگ ہے کتّا اور گیدڑ ہے شغال
 
ہندی میں عقرب کا بچھّو نام ہے<br>
فارسی میں بھوں کا ابرو نام ہے
 
بھیڑیا گرگ اور بکری گوسپند<br>
میش کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند</center>
 
اقبال کی مثنوی "ساقی نامہ" کے اشعار
 
<center>تمدن، تصوف، شريعت، کلام<br>
بتانِ عجم کے پجاری تمام
 
حقيقت خرافات ميں کھو گئی<br>
يہ امت روايات ميں کھو گئی
 
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطيب<br>
مگر لذتِ شوق سے بے نصيب
 
بياں اس کا منطق سے سلجھا ہوا <br>
لغت کے بکھيڑوں ميں الجھا ہوا
 
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق ميں مرد<br>
محبت ميں يکتا، حميت ميں فرد
 
عجم کے خيالات ميں کھو گيا<br>
يہ سالک مقامات ميں کھو گيا
 
بجھی عشق کی آگ، اندھير ہے<br>
مسلماں نہيں، راکھ کا ڈھير ہے</center>
 
== بیرونی روابط==