"سپاہ صحابہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 40:
[[پاکستان میں شیعیت#cite ref-68|اوپر جائیں↑]]</ref>۔
 
=== نوے کی دہائی میں شیعہ کشی اورسپاہ محمد کا قیام ===
نوے کی دہائی میں آفتاب احمد لاشاری نے سپاہ صحابہ کے ساتھ مل کر شیعوں پر کئی خونریز حملے کیے<ref name=":3">[http://www.satp.org/satporgtp/countries/pakistan/database/sect-killing.htm Sectarian Violence in Pakistan<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>۔ ادھر افغانستان میں روس کے جانے کے بعد  مجاہدین کے گروہ اقتدار کی خاطر آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ پاکستانی حمایت یافتہ تحریک طالبان افغانستان نے  مجاہدین کے باقی گروہوں کو ملک کے   شمالی علاقوں تک محدود کر دیا۔ افغان طالبان نے پاکستان  میں دیوبندی انقلاب لانے کی غرض سے دیوبندی تنظیموں کے کارکنان  کو فراخدلی سے پناہ اور ٹریننگ  فراہم کی۔ پاکستان میں شیعہ قتل کر کے یہ لوگ افغانستان بھاگ جاتے۔ ملک کے کئی  نامور ڈاکٹر، انجنیئر اور قانون دان محض شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل کر دیے گئے۔ ان کی عورتیں بیوہ، والدین بے سہارا اور بچے یتیم ہو گئے۔ افغانستان اور کشمیر میں  جہاد کی بدولت سپاہ صحابہ (تنظیم اہل سنت کا نیا نام) کے ہاتھوں میں پتھروں اور چاقوؤں کی جگہ دستی بم اور کلاشنکوف آ گئے تھے۔ اسی کی دہائی میں  مولانا نور الحسن بخاری کی وفات کے بعد شیعہ کشی کی سرپرستی کا بیڑا اٹھانے  والے مولانا [[حق نواز جھنگوی]] اور ان کے پیشرو مولانا [[ایثار القاسمی]] کو جھنگ میں سیاسی خطرہ بننے کے باعث شیخ اقبال ایم این اے نے قتل کرا دیا، جو خود بعد میں سپاہ صحابہ کی انتقامی کارروائی میں قتل ہو گئے<ref>Hassan Abbas, "Pakistan's Drift Into Extremism: Allah, the Army, and America's War on Terror"، Routledge, (2015)۔</ref>۔ 1993ء میں لاہور میں سپاہ محمد کے نام سے ایک شیعہ تنظیم کا قیام ہوا جس نے سپاہ صحابہ کے حملوں کے جواب میں دیوبندی حضرات پر حملے کرنا شروع کیے۔ چنانچہ اگر کسی شیعہ مسجد پر حملہ ہوتا تو کچھ ہی دنوں میں کسی دیوبندی مسجد میں بے گناہ لوگ قتل کیے جاتے۔ حکومت نے صورت حال خطرناک ہوتے دیکھ کر دونوں تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہا تو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کے عسکری حصے کو [[لشکر جھنگوی]] کا نام دے کر لا تعلقی کا اعلان کر دیا، اگرچہ لشکر جھنگوی کے کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں سپاہ صحابہ ہی قانونی اور مالی امداد مہیا کرتی۔ لشکر جھنگوی کے بانی مولانا ضیاء الرحمن فاروقی جنوری 1997 میں سپاہ محمد کی طرف سے کیے گئے ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے<ref>[http://edition.cnn.com/WORLD/9701/18/pakistan.explosion/ CNN - Blast kills at least 26 outside Pakistani courtroom - Jan. 18, 1997<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>۔ اس دھماکے میں متعدد بے گناہ لوگ بھی مارے گئے۔ ادھر لاہور پولیس نے آپریشن کر کے سپاہ محمد کا خاتمہ کر دیا۔ نوے کی دہائی میں ہی کراچی میں  سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی کی طرف سے بریلوی مساجد پر قبضے کے خلاف سنی تحریک کے نام سے ایک اور مزاحمتی گروہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ چنانچہ تکفیری علما نے اب بریلویوں پر قاتلانہ حملے کرنے کا آغاز کر دیا۔ بریلویوں پر پہلا نمایاں حملہ 2001ء میں ہوا جب سنی تحریک کے بانی  جناب  سلیم قادری کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔
 
=== نائن الیون اور خودکش حملوں کا دور ===
[[فائل:Shamzai.jpg|تصغیر|مفتی نظام الدین شامزئی کے فتوے کا عکس، جس کے بعد خودکش حملوں کا طویل سلسلہ شروع ہوا-]]
نوے  کی دہائی کے آخر میں افغان طالبان نے القاعدہ کے سربراہ [[اسامہ بن لادن]] کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا جس کی تنظیم نے 1998ء میں [[مشرقی افریقہ]] میں دو امریکی سفارت خانوں پر بم سے حملے کیے تھے اور ایک امریکی  بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش کی تھی<ref>جان آر شمٹ، "گرِہ کھلتی ہے: جہاد کے دور کا پاکستان" ترجمہ: اعزاز باقر <nowiki>http://mashalbooks.org/product/the-unraveling-pakistan-in-the-age-of-jihad/</nowiki></ref>۔اسامہ بن لادن دراصل اپنے ملک [[سعودی عرب]] میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف تھا مگر اپنے ملک میں سیاسی تحریک چلانے  کے بجا ئے اس قسم  کی  کارروائیوں  میں ملوث ہو گیا تھا۔کراچی میں مقیم ایک بڑے نام والے دیوبندی عالم [[مفتی نظام الدین شامزئی]] پاکستان میں سعودی عرب میں امریکی موجودگی کے خلاف پورے اخلاص کے ساتھ سرگرم تھے <ref><nowiki>http://zahidrashdi.org/1037</nowiki></ref>۔11 ستمبر  2001 ء کو القاعدہ نے کچھ مسافر بردار طیارے اغوا کر کے امریکا کے شہر نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی  میں عمارتوں سے ٹکرا دیے۔7 اکتوبر 2001ءکو امریکا نے افغان طالبان پر حملہ کر دیا۔  پاکستان کی حکومت نے القاعدہ کی جنگ اپنے سر لینے کے بجا ئے  امریکا کو راستہ دینے کا فیصلہ کیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی  نے  پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جہاد کا فتویٰ جاری کیا<ref>مفتی نظام الدین شامزئی  صاحب کا پاکستانی تاریخ کا رخ موڑنے والا فتویٰ حسب ذیل ہے:۔ أ.       تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال میں صرف افغانستان کے آس پاس کے مسلمان امارتِ اسلامی افغانستان کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں اور یہودیوں اورامریکہ کا اصل ہدف امارتِ اسلامی افغانستان کو ختم کرنا ہے دارالاسلام کی حفاظت اس صورت میں تمام مسلمانوں کا شرعی فرض ہے۔ ب.     جو مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہو وہ اگر اس صلیبی جنگ میں افغانستان کےمسلمانوں یا امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف استعمال ہوگا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ت.     الله تعالی کے احکام کے خلاف کوئی بھی مسلمان حکمران اگر حکم دیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اسلامی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہے ،تو ماتحت لوگوں کے لیے اس طرح کے غیر شرعی احکام مانناجائز نہیں ہے، بلکہ ان احکام کی خلاف ورزی ضروری ہوگی ۔ ث.    اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین ،وسائل اور معلومات ان کو فراہم کر رہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیں، چاہےاسکے لیے جو بھی طریقہ استعمال کیاجائے ۔ ج.      افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جانی ومالی اور ہر قسم کی ممکن مدد مسلمانوں پر فرض ہے، لہذا جو مسلمان وہاں جا کر ان کےشانہ بشانہ لڑ سکتے ہیں وہ وہاں جا کر شرکت کر لیں اور جو مسلمان مالی تعاون کرسکتے ہیں وہ مالی تعاون فرمائیں الله تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمانوں کاحامی و ناصر ہو۔ اس فتویٰ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرکے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں فقط و سلام مفتی نظام الدین شامزئی <nowiki>https://sadaehaqq.wordpress.com/2013/11/14/مفتی-شامزئی-رحمہ-اللہ-کا-فتویٰ-جس-کی-بنا/</nowiki></ref>۔ مفتی شامزئی دیوبندی مسلمانوں میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے اور ان کے فتوے کو پاکستان بھر میں خصوصا [[قبائلی علاقہ جات]] میں جہاں حکومتی رٹ کمزور تھی، بہت پزیرائی ملی۔ افغان طالبان چند دنوں میں امریکا کے  ہاتھوں شکست کھا گئے اور بہت سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجو پاکستانی  علاقوں میں آ گئے۔ اس طرح ریاست اور طالبان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ ادھر سن 2002ء کے الیکشن میں خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی شہری حکومت [[متحدہ مجلس عمل]]<nowiki/>کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان حکومتوں نے سرکاری نوکریاں ایسے مذہبی مہم جو افراد کو دیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں  طالبان کے سہولت کار بنے۔ اس جنگ کے ماحول میں شیعہ مخالف تنظیموں نے شیعہ کشی میں خودکش دھماکے کا استعمال شروع کیا جس کے نتیجے میں اعداد و شمار کے مطابق سن 2000ء سے 2017ء  تک تقریباً تین ہزار شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ ،کراچی اور [[ڈیرہ اسماعیل خان]] کے شیعہ ہیں<ref name=":3"/><ref>[https://www.bbc.com/news/world-asia-22248500 'Hell on Earth': Inside Quetta's Hazara community - BBC News<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>۔