"اودھ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 98:
سلطنتِ اودھ انگریزوں کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی طرح آ گئی۔ انھیں اس پر قابض ہوتے وقت معمولی مزاحمت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑا۔ البتہ اس کے دوسرے سال ۱۸۵۷ء میں جب ملک کے دوسرے حصوں میں جنگ اور انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے تو لکھنؤ بھی ان کی لپیٹ میں آ کر ایک بڑے محاذِ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ بیلی گارد (ریذیڈنسی)، عالم باغ اور سکندر باغ وغیرہ کے معرکوں میں مقامی سپاہیوں نے شجاعت اور جاں بازی کے کارنامے دکھائے اور دشمن تک سے داد وصول کی۔ لیکن انگریزوں کی منظّم فوجوں اور لاجواب حربی لیاقت کے آگے ، اور کبھی اپنے ہی غدّار ساتھیوں کی بدولت، جیت نہ سکے۔ اس طرح آزادی کی یہ پہلی جدوجہد پورے ہندوستان کی طرح لکھنؤ میں بھی ناکامی پر ختم ہوئی۔
 
 
آصف الدولہ نے فیض آباد کے بجائے لکھنؤ کو اپنی سلطنت کا مستقر بنایا اور اچانک لکھنؤ شمالی ہند کا مرکزِ نظر بن گیا۔ آصف الدولہ کی دل آویز شخصیت، بے اندازہ فیّاضی، علم دوستی اور اہلِ ہنر کی قدردانی نے بہت جلد لکھنؤ کو مرجعِ خلائق بنا دیا۔ جس وقت دہلی کی سلطنت کا چراغ بجھ رہا تھا، لکھنؤ کے چراغ کی لو اونچی ہو رہی تھی۔ تاریخ اور ادبیات کے واقف خوب جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں دہلی کے کتنے با کمالوں نے لکھنؤ کو آ بسایا۔ گردشِ زمانہ نے دہلی کے چراغ کا بچاکھچا روغن لکھنؤ کے کنول میں انڈیل دیا اور دہلی ہی نہیں، ہندوستان بھر سے قدردانی اور معاش کے طلبگاروں نے کھنچ کھنچ کر لکھنؤ آنا شروع کر دیا۔ یوں لکھنؤ کی تہذیب کی تشکیل ہوئی۔ اس تشکیل کی رفتار نہایت تیز تھی اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب تقریباً یک لخت معرضِ وجود میں آ گئی۔ اس کے پسِ پشت صدیوں اور قرنوں کے تجربات و حوادث کارفرما نہیں تھے۔ چند سال کے اندر اس تہذیب نے اپنی ارتقائی منزلیں طے کر لیں اور پھر بہت تیزی کے ساتھ ثقافت اور معاشرت کے لحاظ سے ایک واضح اور منفرد شکل اختیار کر کے اپنے عروج کی انتہائی منزل تک پہنچ گئی۔ یہ ارتقائی منزلیں آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کے دورِ نیابت میں طے ہوئیں، غازی الدین حیدر (۱۸۱۳ء تا ۱۸۲۷ء) اور نصیرالدین حیدر (۱۸۲۷ء تا ۱۸۳۷ء) کے دورِ بادشاہت تک لکھنؤ کی تہذیب اپنی آخری بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔ اس عہد کا ایک خاکہ ہمارے سامنے مرزا رجب علی بیگ سرور نے "فسانۂ عجائب" کے دیباچے میں پیش کر دیا ہے جس کی تصدیق سرور کے ایک دہلوی ہم عصر کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔
{{فیض آباد ڈویژن کے موضوعات}}