حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 119:
 
اگر بلتستان کو ایک پوشیدہ ملک کہیں تو اس کا زیادہ اطلاق خپلو پر ہوگا۔ اس چھوٹی سی بلتی سلطنت کا ذکر سب سے پہلے مرزا حیدر (1499ء–1551ء) کی مشہور کتاب تاریخ راشدی میں خپالو کے نام سے ہوا۔ مصنف نے خپلو کو بلتی کا ایک ضلع قرار دیا ہے۔ لیکن 17 ویں اور 18ویں صدی میں باہر کے لوگوں کو اس علاقے سے کافی شناسائی ہونے لگی جس کی وجہ اس علاقے کا [[لداخ]] سے جغرافیائی اور راجوں کے خاندانی رشتہ داری اور تعلقات تھے۔ یہاں کے راجے اکثر اوقات [[سکردو]] کے راجوں کے ماتحت ہی رہے اور یہ راجے ایک خاص مقدار میں ٹیکس بھی ادا کرتے تھے۔ ان راجگان کے دور میں اس خطے کے دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی غربت کی بھٹی میں پستا رہا عام لوگ راجوں کو اپنے زراعت اور مال مویشیوں میں سے خاص قسم کا ٹیکس دینے کے پابند تھے نیز راجا صاحب اپنی مرضی کے مطابق جس زمین کو چاہیں لوگوں سے ہتھیا سکتے تھے۔ راجگان کا یہ دور قیام پاکستان کے بعد [[ذوالفقار علی بھٹو]] کے دور میں کہیں جاکے ختم ہوا اب بھی یہاں کے لوگ ان سے اسی حوالے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
کیپٹن کلاڈی مارٹن واڈے (1794ء–1861ء) شاید پہلے یورپی تھے جو اس مقام پر پہنچے جنھوں نے 1835ء میں چھپنے والے ایک انگریزی مضمون ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں اسے چلو کے نام سے پکارا ہے۔ جبکہ مارکروفٹ ٹریبک نامی خاتون مصنف نے 1841ء میں چھپنے والی اپنی کتاب میں لکھا ہے " کفالون ایک صوبہ ہے جو نوبرا میں شیوک کے کنارے واقع ہے"۔ الیگزینڈر چیننگم نے 1854ء میں اس علاقے کا ایک تفصیلی نقشہ اور اس علاقے کے راجاوں کا شجرہ نصب بیان کیا ہے۔ ایک اور انگریز سیاح تھامس تھومسن نے نومبر 1847ء میں لکھا کہ تبت کا ناقابل بیان خوبصورت علاقہ۔ نائٹ اپنے سفر میں بیان کرتے ہیں کہ [[خپلو]] [[بلتستان]] کا سب سے بڑا مالدار علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے جنت کے باغیچوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ جین ای ڈنکن اس علاقے میں 1904ء میں پہنچی وہ یہاں تین ہفتے رہیں نیز لکھتی ہیں کہ یہ غالباً اس خطے کا سب سے پیارا نخلستان ہے۔
 
== سیاحت ==
سطر 140:
[[زمرہ:ضلع گانچھے کے آباد مقامات]]
[[زمرہ:گلگت بلتستان کے آباد مقامات]]
[[زمرہ:کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے]]