"سید احمد بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 50:
 
[[پاکستان میں شیعیت#cite ref-50|↑]]</ref>۔ ان لوگوں نے اپنی دانست میں خدا کی شان بیان کرنے کے لیے رسول اللہ(ص) کے بارے میں ایسی تعبیرات استعمال کیں جن کو روایتی مسلمان توہین آمیز سمجھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد سنی علما نے ان کے افکار کے خلاف رسالے لکھے، جن میں علامہ [[فضل حق خیر آبادی]]، مولانا [[عبدالمجید بدایونی]]، مولانا [[فضل رسول بدایونی]]، مفتی [[صدر الدین آزردہ]]، مولانا محمد موسیٰ اورمولانا [[ابوالخیر سعید مجددی]] نمایاں تھے۔ [[مولانا فضل حق خیرآبادی]] نےانکےرد میں ایک کتاب <nowiki>''</nowiki>''تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ''<nowiki>''</nowiki>اورشیعہ عالم سید علی عسکری نے "ازالہ الغئی فی رد عبدالحئی" لکھی۔ان علما کے پیروکار بعد میں  امام [[احمد رضا خان]] بریلوی کی نسبت سے بریلوی کہلائے۔ یہ سلسلہ اہلسنت میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کی تقسیم کا سبب ہوا۔
 
سید احمد بریلوی کی تحریک کے بعد سے جتھوں کی شکل میں جلوسِ عزا اور امام بارگاہوں پر حملوں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ ایسے تنازعات پر دہلی اردو اخبار کی  22 مارچ 1840ء کی ایک خبر ملاحظہ کریں:۔
 
’’سنا گیاکہ عشرۂ محرم میں باوجود اس کے کہ ہولی کے دن بھی تھے اس پر بھی بسبب حسن انتظام صاحب جنٹ مجسٹریٹ اور ضلع مجسٹریٹ کے بہت امن رہا۔ کچھ دنگا فساد نہیں ہوا ۔ صرف ایک جگہ مسمات امیر بہو بیگم بیوہ شمس الدین خان کے گھر میں، جو شیعہ مذہب ہے اور وہاں تعزیہ داری ہوتی ہے ،کچھ ایک سنی مذہبوں نے ارادہ ءفساد کیاتھا لیکن کچھ زبانی تنازع ہوئی تھی کہ صاحب جنٹ مجسٹریٹ کے کان تک یہ خبر پہونچی ۔ کہتے ہیں کہ صاحب ممدوح جو رات کو گشت کو اٹھےتو خود وہاں کے تھانہ میں جاکے داروغہ کو بہت تاکید کی اور کچھ اہالیان پولس تعین کیے کہ کوئی خلاف اس کے گھرمیں نہ جانے پاوے۔ سو خوب انتظام ہو گیا اور پھر کہیں کچھ لفظ بھی نزاع کا نہ سنا گیا ‘‘<ref>مرتبہ خواجہ احمد فاروقی، ’’دہلی اردو اخبار ‘‘، 22 مارچ 1840ء، شائع کردہ شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، جمال پرنٹنگ پریس دہلی،( 1972)۔</ref>۔
 
کنہیا لال نے اپنی کتاب ”تاریخ لاہور“ میں لکھا ہے:۔
 
”1849ء میں اس مکان (کربلا گامے شاہ) پر سخت صدمہ آیا تھا کہ 10 محرم کے روز جب ذوالجناح نکلا تو رستہ میں، متصل شاہ عالمی دروازے کے، مابین قوم شیعہ و اہل سنت کے سخت تکرار ہوئی۔ اور نوبت بزد و کوب پہنچی۔ قوم اہلسنت نے اس روز چاردیواری کے اندرونی مکانات گرا دیئے۔ مقبرہ کے کنگورے وغیرہ گرا دیئے۔ چاہ کو اینٹوں سے بھر دیا۔ گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ آخر ایڈورڈ صاحب دپٹی کمشنر نے چھاونی انارکلی سے سواروں کا دستہ طلب کیا تو اس سے لوگ منتشر ہو گئے۔ اور جتنے گرفتار ہوئے ان کو کچھ کچھ سزا بھی ہوئی“<ref>کنہیا لال، ”تاریخ لاہور“، صفحہ 305، وکٹوریہ پریس لاہور، (1884)۔</ref>۔
 
== سفر حج اور تحریک مجاہدین ==