"قتیل شفائی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
سطر 6:
 
== ابتدائی زندگی اور کیرئر ==
تقیلقتیل شفائی 1919ء میں [[برطانوی ہند]] (موجوہ [[پاکستان]]) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام محمد اورنگ زیب تھا۔<ref>Poetry One website, [http://poetryone.com/best/poets/qateel-shifai/ Poetry of Qateel Shifai] Retrieved 12 جون 2018</ref> ان کا خاندانی پس منظر [[ہندکوان]] ہے۔
انہوں نے 1938ء میں ''قتیل شفائی'' اپنا قلمی نام رکھا اور [[اردو]] دنیا میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ اردو شاعری میں وہ ''قتیل'' تخلص کرتے ہیں۔ شفائی انہوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحیی شفا کانپوری کے نام کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ لگایا۔<ref name=rekhta/>
1935ء میں ان کے والد کی وفات ہوئی اور ان پر اعلیٰ تعلیم چھوڑنے کا دباو بنا۔ انہوں نے کھیل کے سامان کی ایک دکان کھول لی مگر تجارت میں وہ ناکام رہے اور انہوں نے اپنے چھوٹے سے قصبے سے [[راولپنڈی]] منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں انہوں نے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شراع کیا۔ بعد میں 1947ء میں انہوں نے [[پاکستانی سنیما]] میں قدم رکھا نغمہ لکھنے لگے۔<ref name=rekhta>[https://rekhta.org/poets/qateel-shifai/profile Profile of poet Qateel Shifai on rekhta.org website] Retrieved 12 جون 2018</ref> ان کے والد ایک تاجر تھے اور ان کے گھر میں شعر و شاعری کا کوئی رواج نہ تھا۔ ابتدا میں انہوں حکیم یحیی کو اپنا کلام دکھانا شروع کیا اور بعد میں [[احمد ندیم قاسمی]] سے اصلاح لینے لگے اور باقاعدہ ان کے شاگرد بن گئے۔ قاسمی ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔<ref name=rekhta/>
 
== فلمی دنیا ==
1948ء میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کی نغمہ نگاری سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر 201 فلموں میں 900 سے زائد گیت تحریر کئے۔ وہ پاکستان کے واحد فلمی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لئے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ انہوں نے کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں پشتو فلم عجب خان آفریدی کے علاوہ ہندکو زبان میں بنائی جانے والی پہلی فلم ’’قصہ خوانی‘‘ شامل تھی۔ انہوں نے اردو میں بھی ایک فلم ’’اک لڑکی میرے گائوں کی‘‘ بنانی شروع کی تھی مگر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی تھی۔ فلمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ قتیل شفائی کا ادبی سفر بھی جاری رہا