"سانحۂ ٹھیری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
م خودکار: درستی املا ← لا، طلبہ، دہشت گرد، کے لیے، مکتب فکر، == مزید دیکھیے ==، لیے، ئے، ہو گئے؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 4:
| lon_deg = 68.46
| label = ٹھیری
}}|location=[[ٹھیری]]، [[سندھ]]، [[پاکستان]]|target=[[شیعہ عزادار]]|date=6 جون 1963|time=|timezone=|type=[[قتل عام]]|fatalities=118|injuries=نامعلوم|perp=<nowiki> تنظیم اہل سنت (ایک دیوبندی جماعت)</nowiki>|motive=ضد شیعیت|weapons=چاقو اور کلہاڑیاں}}'''سانحۂ ٹھیری''' ایک اجتماعی قتل تھا جو 6 جون 1963 کو [[پاکستان]] کے صوبے [[سندھ]] کے قصبے [[ٹھیری]] میں پیش آیا۔ اس میں دس محرم کے دن دیوبندی مسلمانوں کے ہجوم نے 118 شیعہ مسلمان مارے ۔ اگرچہ یہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف پاکستان کا تشدد کا پہلا واقعہ نہیں تھا ، لیکن یہ حملہ قیامِ پاکستان کے بعد اس ملک میں شیعہ شہریوں کا پہلا بڑا قتل عام سمجھا جاتا ہے۔<ref name=":0" /><ref>{{Cite web|url=https://nation.com.pk/27-Mar-2015/unsupervised-madrassas-have-destroyed-sindh-s-pluralism|title=Unsupervised madrassas have destroyed Sindh's pluralism|website=The Nation|first=Shehnila Zardari|date=March 27, 2015|accessdate=01-03-21}}</ref><ref>{{Cite web|url=https://www.geo.tv/latest/634-banned-terrorist-outfits-trying-to-establish-network-in-interior-sindh|title=Banned terrorist outfits trying to establish network in Interior Sindh|date=Jan 31, 2015|accessdate=01-03-21|website=Geo News|last=Syed Arfeen}}</ref>
 
== پس منظر ==
 
=== سید احمد بریلوی کی میراث ===
سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی برصغیر میں جدید شیعہ مخالف کےبانی سمجھے جاتے ہیں۔ پروفیسر باربرا مٹکاف کا کہنا ہے کہ:
 
” دوسری  قسم کے امور  جن سے سید احمد بریلوی   شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:
سطر 15:
<blockquote>’ایک سچے مومن کو  طاقت کے استعمال کے ذریعے  تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔</blockquote>سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں  نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں  ہزاروں کی تعداد میں  تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے  جلائے جانے کاذکر کیا ہے“۔ <ref>B. Metcalf, "'''Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900'''", p. 58, Princeton University Press (1982).</ref>
 
یہ حملے 1818 سے 1820 کے درمیان کیے گئے تھے۔1831 میں بالاکوٹ میں ان کی موت کے بعد ان کی فرقہ وارانہ میراث دیوبند مکتبہمکتب فکر میں منتقل ہوئی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد مذہبی دہشتگرددہشت گرد عقیدے کے لحاظ سے دیوبندی ہیں اور ان میں سے بہت سے پشتون بیلٹ (جس علاقے میں سید احمد نے اپنی مذہبی ریاست بنانے کی کامیاب کوشش کی تھی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ <ref>S. E. Hussain, "'''[http://repository.upenn.edu/edissertations/136 Terrorism in Pakistan: Incident patterns, terrorists’ characteristics, and the impact of terrorist arrests on terrorism]'''". PhD thesis. University of Pennsylvania, (2010). Available online: </ref>
 
=== قیام پاکستان کے بعد شیعہ مخالف تشدد ===
پراسرار حالات میں جناح کے انتقال کے بعد وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے دیوبندی علمائے کرام سے اتحاد کیا اور [[قرارداد مقاصد]]<nowiki/>منظور کی جس میں مذہب کو قانون اور سیاست میں اہم مقام دیا گیا تھا۔ شیعہ اور احمدی مذہبی رہنماؤں نے بھی غیر مسلم شہری کے خلاف اس اقدام کی حمایت کی۔ اس پر احتجاج کرتے ہوۓہوئے جناح کے مقرر کردہ وزیر قانون ، [[جوگیندر ناتھ منڈل|جوگندر ناتھ منڈل]] نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
 
1950 کی دہائی میں ، تنظیم ''اہل سنت نامی شیعہ مخالف جماعت'' نے پورے پاکستان میں عوامی اجتماعات کا اہتمام کرنا شروع کیا تاکہ تشدد کو ہوا دی جاسکے اور شیعوں کا مذاق اڑایا جاسکے۔ اس تنظیم نے ایک شیعہ مخالف ماہنامہ” دعوت “بھی جاری کیا ۔ محرم 1955 میں پنجاب میں کم سے کم 25 مقامات پر عزاداری کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1956 میں ہزاروں مسلح افراد چھوٹے سے قصبےشہر سلطان میں عزاداری پر حملہ کرنے کے کیلئےلیے جمع ہوئے ، لیکن پولیس نے انہیں اس کام سے روک دیا۔ 7 اگست 1957 کو سیت پور ضلع مظفر گڑھ میں ایک حملے کے دوران تین شیعہ مارے گئے۔ مئی 1958 میں بھکر میں شیعہ خطیب آغا محسن کو نشانہ بنایا گیا۔ <ref>A. Rieck, "'''The Shias of Pakistan'''", pp. 88 – 98, Oxford University Press, (2015).</ref>
 
ایوب خان نے 1958 میں مارشل لاءلا نافذ کیا۔ 1960 کی دہائی میں کچھ جگہوں پر عزاداری کے جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی اور یہ پابندی صرف احتجاج کے بعد ہی ختم کی گئی۔ لاہور میں موچی گیٹ کے مرکزی جلوس کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 1962 میں مارشل لاءلا کے خاتمے کے بعد شیعہ مخالف نفرت پروپیگنڈہ ایک بار پھر کتابوں اور ہفتہ وار مقالوں کی شکل میں شروع ہوا۔ دیوبندی جماعت تنظیم اہل ''سنت'' نے 3 جون 1963 کو لاہور میں عاشورہ کے جلوس پر حملہ کیا جس میں دو شیعہ ہلاک اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔<ref name=":0">A. Rieck, "'''The Shias of Pakistan'''", p. 110, Oxford University Press, (2015).</ref>
 
== واقعہ ==
3 جون 1963 کو [[عاشورا|عاشورہ]]<nowiki/> کے دن ٹھیری میں حسب معمول شیعوں نے جلوس اور مجلس عزا کا اہتمام کر رکھا تھا۔ [[خیرپور]] کے ایک دیوبندی مدرسے کے طلباءطلبہ نے تنظیم اہل سنت کے کارکنان سے مل کر امامبارگاہ پر حملہ کیا۔ اس وقت مجلس ہو رہی تھی۔ کلہاڑیوں اور چھریوں سے لیس افراد کا مقابلہ کرنے کیلئےکے لیے عزاداروں کے پاس کچھ نہ تھا۔ وہاں موجود لوگوں کو ذبح کرنے کے بعد امام بارگاہ کو آگ لگا دی گئی۔ اس سے زخمیوں کے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہ رہا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک سو اٹھارہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ <ref name="Murphy2018">{{حوالہ کتاب|url=https://books.google.com/books?id=VjduDwAAQBAJ&pg=PT100|title=Islam and Sectarian Violence in Pakistan: The Terror Within|last=Eamon Murphy|date=18 October 2018|publisher=Taylor & Francis|isbn=978-1-351-70961-3|pages=100–|access-date=9 June 2019}}</ref>
 
اخبارات نے ان واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوۓہوئے حملہ آوروں اور متاثرہ افراد کی شناخت چھپا دی۔ <ref>Abbas Zaidi, "[https://www.palgrave.com/gp/book/9781349949656 Covering Faith-Based Violence: Structure and Semantics of News Reporting in Pakistan]", in: J. Syed et al. (eds.), Faith-Based Violence and Deobandi Militancy in Pakistan, Palgrave Macmillan, (2016).</ref> 16 جون کو 6 [[دیوبندی مکتب فکر|دیوبندی]] تنظیموں نے لاہور میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا ، جس میں انہوں نے متاثرہ افراد کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ جولائی میں ، فسادات کی تحقیقات کے لئےلیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ۔ اس کی رپورٹ اسی سال دسمبر میں شائع ہوئی تھی ، لیکن اس میں کسی شخص یا تنظیم کا نام نہیں لیا گیا نہ کسی کو سزا دی گئی۔ <ref>A. Rieck, "'''The Shias of Pakistan'''", pp. 111 – 114, Oxford University Press, (2015).</ref>
 
== بعدیہ ==
1969 میں جھنگ میں عاشورہ کے جلوس پر حملہ ہوا۔ 26 فروری 1972 کو ڈیرہ غازیخان میں عاشورہ کے جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔ مئی 1973 میں شیخوپورہ کے علاقے گوبند گڑھ کے شیعہ محلے پر ہجوم نے حملہ کیا۔ اس سال پاراچنار اور گلگت میں بھی شیعہ آبادیوں پرحملے ہوئے۔ 1974 میں گلگت میں شیعہ دیہات پر مسلح دیوبندی افراد نے حملہ کیا۔ جنوری 1975 میں کراچی ، لاہور ، چکوال اور گلگت میں شیعہ جلوسوں پر متعدد حملے ہوئے۔ لاہور کے قریبی گاؤں بابو صابو میں مجلس عزا پر حملےکے نتیجے میں تین شیعہ ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ہو گئے۔ <ref>A. Rieck, "'''[https://books.google.com/books?id=t6aKCwAAQBAJ&pg=PA180&dq=The+Shias+of+Pakistan+re-emergence+of+sectarian+problem&hl=en&sa=X&redir_esc=y#v=snippet&q=Babu%20Sabu%20near%20Lahore&f=false The Shias of Pakistan]'''", pp. 181– 184, Oxford University Press, (2015).</ref>
 
== بین الاقوامی رد عمل ==
اس وقت کے عالمی شیعہ مذہبی رہنما آیت اللہ [[سید محسن طباطبائی حکیم|محسن الحکیم]] نے صدر پاکستان [[ایوب خان|محمد ایوب خان]] کو ایک خط لکھ کر اس سانحے کی شدید مذمت کی۔ <ref>S. W. Fuchs, "'''In a Pure Muslim Land: Shi'ism Between Pakistan and the Middle East'''", p. 113, The University of North Carolina Press, (2019).</ref>
 
== مزید دیکھیۓدیکھیے ==
 
* [[اہل تشیع|شیعہ اسلام]]
سطر 43:
* [[سپاہ صحابہ|سپاہ صحابہ پاکستان]]
* [[کشمیر میں تاراج ِشیعہ|کشمیر میں تاراج شیعہ]]
 
== حوالہ جات ==
 
[[زمرہ:پاکستان میں قتل عام]]