"پاکستان میں عصمت دری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4:
 
2019ء میں، حکومت پاکستان نے ملک بھر میں ایک ہزار خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ یہ خصوصی عدالتیں صرف خواتین پر تشدد سے متعلق امور کو حل کرنے پر توجہ دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے ان خصوصی عدالتوں کے قیام کو سراہا۔<ref name=reuter2019>{{cite web|url=https://www.reuters.com/article/us-pakistan-women-court/pakistan-to-set-up-special-courts-to-tackle-violence-against-women-idUSKCN1TK2X2|title=Pakistan to set up special courts to tackle violence against women|date=20 جون 2019|work=Reuters}}</ref>
==پاکستانی قانون کے مطابق ریپ کی تعریف==
پاکستانی قانون کی رو سے "ریپ" صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب کسی عورت کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر جماع (sexual intercourse) کیا جائے۔ ملاحظہ کیجیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375۔اسی طرح "زنا" صرف اس جرم کو کہا جاتا ہے جب مرد اور عورت، جن کا آپس میں نکاح نہ ہو، جماع کریں۔ ملاحظہ ہو: جرمِ زنا (نفاذ حدود) آرڈی نینس کی دفعہ 4۔
پاکستانی قانون کے مطابق مدرس یا استاد کی شاگرد سے زیادتی کو قانون کی رو سے "غیر فطری جرائم" (unnatural offences) میں شمار کیا جاتا ہے اور اگر ایسے جرائم میں دبر میں دخول (carnal intercourse) ثابت ہو، تو جرم کی سزا عمر قید ہوسکتی ہے۔ دیکھیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377۔ اگر دبر میں دخول تو ثابت نہیں ہوسکا لیکن دیگر افعال ثابت ہوں جن کو قانون غیر فطری جرائم میں شمار کرتا ہے، تو اس صورت میں جرم کو جنسی بدسلوکی (sexual abuse) کہا جاتا ہے اور اس کی سزا سات سال تک قید یا/اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ دیکھیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377 اے اور بی۔
مدرس یا استاد کی لڑکے سے زیادتی کو fornication بھی نہیں کہا جاسکتا جو "زنا مستوجبِ تعزیر" کا نیا نام ہے۔ ملاحظہ کیجیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 496 بی۔
 
== مزید دیکھیے ==