"اردو کی آخری کتاب (تصنیف)" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
حیدر (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 1:
اردو ادب میں مزاحیہ اور طنزیہ ادب لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ صرف نام گنوانے کے لئے ہی کئی صفحات چاہئیں۔ اس فہرست میں ایک چمکتا ہوا نام ”ابن انشاء“ کا ہے ابن انشاءادب مزاح کی گراں قدر مالا کا وہ خوبصورت موتی ہے۔ جو موزنیت اور مناسبت کے لحاظ سے ہر رنگ میں اپنا جواب آپ ہیں ۔ اس نگینے سے نکلنے والی چمک خواہ شاعری میں ہو ، خواہ نثر میں ہر جگہ منفرد اور نمایاں ہے۔بقول محمد اختر صاحب، ” ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے۔“
سطر 23 ⟵ 21:
کتاب کی پیش کش کا انداز بہت ہی بہترین ہے کتاب کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں الٹا گیا اور مسکراہٹ قاری کے لبوں پر کھیلنے لگتی ہے۔ یہاں چند مثالیں دے کر اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کتاب بے شمار مختلف اور دلکش ، طنزیہ اور مزاحیہ فقروں سے بھر ی پڑی ہے۔ چنانچہ کتاب کے ابتدائی ابواب میں درج سوالات ، سبق آموز کہانیاں، ریاضی کے قاعدے ، جانوروں کا بیان، پرندوں کا احوال ، رامائن اور مہا بھارت کے زمانے سے لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور تک کی تاریخ، جغرافیے کے اسباق، مناظر قدرت کے تذکرے ، ابتدائی سائنس اور گرائمر کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے ۔ اور تو اور مولانا شیخ سعدی کی حکایات کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔
== طنزیہ اسلوب
ابن انشاءکو مت پڑھ<br>
سطر 32 ⟵ 30:
کا ذمہ دار نہ ہوگا<br>
”علم بڑی دولت ہے لیکن جس کے پاس علم ہوتا ہے اس کے پاس دولت کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اس کے پاس علم کیوں نہیں ہوتا؟“<br>
کتاب کاآغاز ایک دعا سے ہوتا ہے اور دعا کایہ جملہ کہ ،<br> ”انسان وہی چیز مانگتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔“
سادگی و پرکاری کے ساتھ یہ بات ایک گہری معنی بھی رکھتی ہے اور یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ مادی اشیاءکے علاوہ روحانی پاکیزگی اور بالیدگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب کی طر ف واضح اشارہ ملتا ہے۔ یعنی دنیا کے مختلف ملکو ں میں ایک قوم آبادہے اور ہمارے ہاں کوئی ، پنجابی ہے کوئی پٹھان ، کوئی سندھی کوئی بلوچی ۔ اس سبق کا آخری فقرہ اتنا تیکھا ہے کہ اس کی مثا ل طنزیہ ادب میں نہیں ملتی ۔<br>
” پھر الگ ملک کیوں بنایا تھا غلطی ہوئی معاف کیجیے گا آئندہ نہیں بنائیں گے۔“<br>
== تمثیلی انداز رمزیہ انداز
اس کتاب کا انداز کہیں تمثیلی اور کہیں رمزیہ ہے اُن کا ہر حربہ اور تجربہ حد درجہ کامیاب ہے۔جس میں ہماری قومی کوتاہیوں کا ذکر بھی ہے اور انفرادی خود غرضیوں کا تذکرہ بھی وقتی فائدے کے لئے ناجائز ذرائع پر ایمان کی داستان کا بیان بھی ہے اور اس دور کے حکمرانوں کی نااہلیاں اور حماقتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایسے لطیف او ر شگفتہ انداز میں ہے کہ قاری دیر تک اس سے لطف انداز ہوتا رہتا ہے۔ حکمرانوں کے اردگرد خوشامدیوں کی کمی نہیں ۔ ”دین الٰہی“ کے عنوان سے ایسے لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے جو حکمرانوں کے اردگرد خوشامد کرتے ہیں اوریہ ایسا موضوع ہے جو ہر زمانے میں رائج رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ تازہ رہے گا۔<br>
سطر 45 ⟵ 43:
”ہمار اتمہار خدابادشاہ“ اور ”برکات حکومت انگلیشیہ “ میں ابن انشاءنے آزادی کے بعد بھی رہ جانے والی ناہمواروں کا بیان کیا ہے۔
== ریاضی کا حصہ
=== جمع
جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہے عام لوگوں کے لئے ایک جمع ایک برابرڈیڑھ ہے کیونکہ آدھا انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں تجارت کے قاعدے سے ایک جمع ایک کا مطلب گیارہ ہے رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔“
=== تقسیم
اگر آپ کو مکمل پہاڑہ مع گر یاد ہو تو کسی کو تقسیم کی کانوں کان خبر نہیں ہو سکتی آخر ٢١ کروڑکی دولت کو 22 خاندانوں نے آپس میں تقسیم کیا ہی ہے کسی کو پتہ چلا؟۔“
=== الجبرا
حساب اعداد کا کھیل ہے الجبرا حرفوں کا ان میں سب سے مشہور حرف لا ہے جسے لہ کہتے ہیں بعض رشتوں میں الجبراءیعنی جبر کا شائبہ ہوتا ہے ۔ جسے مدر ان لائ۔ فاردر ان لا وغیر ہ ۔ مارشل لا کو بھی الجبرے کا ایک قاعدہ سمجھنا چاہیے۔“<br>
== تاریخ مغلیہ
== گرائمر
” فعل لازم وہ ہے جو کرنا لازم ہو مثلاً افسر کی خوشامد ، حکومت سے ڈرنا ، بیوی سے جھوٹ بولنا وغیرہ۔“<br>
”فعل متعدی عموماً متعدی امراض کی طرح پھیل جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کنبہ پروری کرتا ہے دوسرے بھی کرتے ہیں ۔ ایک رشوت لیتا ہے دوسرے اس سے بڑھ کر لیتے ہیں۔“
== کہانیاں
== قافیہ پیمائی
”جو زیادہ گنے کھائے گا شکر کی بیماری پائے گا سوئیاں لگوائے گا چلا ئے گا ۔ مارا جائے گا۔“
”علم بڑی دولت ہے تو بھی سکول کھول، علم پڑھا ، فیس لگا، دولت کما، فیس ہی فیس ، پڑھائی کی بیس، بس کے تیس، یونیفارم کے چالیس۔“<br>
”سبزی کا خیال چھوڑ ، وٹامن سے منہ موڑ ، مسور کی دال کھا اپنے منہ پہ نہ جا۔ “
== جغرافیہ
” کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا ۔ بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی کولمبس تو مرگیا اس کا خمیازہ ہم لوگ بھگت رہے ہیں۔“
▲ جغرافیے کے اسباب میں کولمبس کا امریکہ دریافت کرنا ایک ایسا حادثہ قرار ددیا گیا ہے ۔ جو نہ صرف مزاح کو چاشنی رکھتا ہے بلکہ ایک چھپا ہوا طنز بھی نمایاں ہے۔<br>
▲” کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا ۔ بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی کولمبس تو مرگیا اس کا خمیازہ ہم لوگ بھگت رہے ہیں۔“<br>
▲ ابن انشاءنے ہندوستانی اور پاکستانی سیاست کو ایک ہی پس منظر میں دیکھا ہے اور مشرقی قومیں اپنی رہنمائوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتی اس پر گہرا طنز کیا ہے اُس زبردست تنقید کو گاندھی جی کے باب میں دیکھا جا سکتا ہے۔<br>
” ہمیں قائدعظم کا ممنون ہونا چاہیے کہ خود ہی مرگئے سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کے لئے ایک جگہ پیدا کردی ورنہ ہمیں بھی گاندھی جی کی طرح ان کو مارنا پڑتا۔“<br>
”جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا محمود و آیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ۔ باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔“
== سائنسی اصطلاحات
” گرمیاں آتی ہیں تو کراچی کا محکمہ واٹر سپلائی پانی کے نلکوں میں گیس سپلائی کرنے لگتا ہے اس لئے غسل خانوں میں روٹی پکاتے اور باورچی خانوں میں (پسینہ میں ) نہاتے دیکھے جاتے ہیں۔“
” کوئی شخص حکومت کی کرسی پر بیٹھ جائے تو اُس کے لئے اُٹھنا مشکل ہو جاتا ہے لوگ زبردستی اٹھاتے ہیں یہ بھی کشش ثقل کے باعث ہے۔“
== حکایات
== جانوروں اور پرندوں کا بیان
”ایک کتا لیلیٰ کا بھی تھا لوگ لیلیٰ تک پہنچنے کے لئے اس پیار کرتے تھے اس کی خوشامد کرتے تھے جس طرح صاحب سیکرٹری یا چپڑاسی کی کرنی پڑتی ہے۔“
== مجموعی جائزہ
▲ ابن انشاءنے عظمت خیال اور حساس تخیل کے ذریعے طنز و مزاح کو نیا انداز دیا ہے اور زندگی کے ہر پہلو سے انصاف کرنے کے پوری پوری کوشش کی ہے۔ ہمارے نثری ادب میں عمدہ مزاح نگاروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اور ابن انشاءجیسی چلبلی نثر تو بالکل نایاب ہے ان کی شاندار پیروڈی ”اردو کی آخری کتاب“ میں ہماری ساری خود فریبیاں ، قول و فعل میں تضاد ، معاشرتی بے حسی ، نمود و نمائش کی خواہش غرض زندگی کے ہر شعبے کی ناہمواریاں موجود ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا خوش دل ہنسنے ہنسانے والا شخص خود رنجیدہ نہیں ہے اُن کا دل اُن معاشرتی ناہمواریوں پر کڑھتا ہے اور انکی روح الم زدہ ہے یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے زندگی کو الگ زاویہ نظر سے دیکھا ۔ پرکھا اور بیان کیا۔ اردو گرد بکھری ہوئی ناہمواریوں کا گہرا سنجیدہ و شعور ابن انشاءکی تحریروں کا امتیازی وصف ہے۔ وہ ہر جگہ ایک ایسے خالق نظر آتے ہیں جو تخلیق کے کرب سہتا ہے بقول خالد اختر
▲” ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے۔“<br>
ابن انشاءکا مزاح لفظوں کا ہیر پھیر ، لطیفہ گوئی یا مضحک کرداروں کا رہین منت نہیں ہے بلکہ ان کا مزاح تخیل کی تخلیق ہے ۔“▼
▲سحر انصاری صاحب کا کہنا ہے کہ، ابن انشاءکا مزاح لفظوں کا ہیر پھیر ، لطیفہ گوئی یا مضحک کرداروں کا رہین منت نہیں ہے بلکہ ان کا مزاح تخیل کی تخلیق ہے ۔“
[[
[[
|