ہبہ

قانون میں، ایک شخص (عطیہ دہندہ یا عطیہ دہندہ) سے دوسرے شخص کو جائیداد کی رضاکارانہ منتقلی

ہبہ کسی شخص کو عوض کے بغیرکسی چیز کا مالک بنا دینا ۔[1]

ہبہ کے لغوی معنی ترمیم

ہبہ کے لغوی معنی ہیں کسی کو نفع بخش چیز دے کر اس پر مہربانی کرنا اگرچہ وہ مال نہ ہو۔[2]

اصطلاحی تعریف ترمیم

ہبہ کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ کسی کو کسی چیز کا بغیر کسی عوض کے فی الحال مفت مالک بنادیا جائے۔شرعاً کسی شے کا مفت یعنی بلاکسی عوض کے مالک بنانا ہبہ کہلاتا ہے۔[3]

الفاظِ ہبہ ترمیم

الفاظِ ہبہ کی تین قسمیں ہیں :

  • (1) پہلی قسم: ان الفاظ کی ہے جوصراحۃً اور وضعاً ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوں جیسے کوئی شخص کسی سے کہے: میں نے تم کو یہ چیز ہبہ کی یا یہ کہے تم کو فلاں چیز کا مالک بنادیا یا میں نے فلاں چیز تمھارے لیے بنادی۔
  • (2)دوسری قسم: ان الفاظ کی ہے جو کنایۃً اور عرفاً ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں ، مثلاً کوئی شخص کسی سے کہے میں نے تم کو یہ کپڑا پہنادیا، یامیں نے تم کو یہ گھر عمر بھر کے لیے دیدیا، اس طرح کے دیگر الفاظ عرفا اور کنایۃً ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں ۔
  • (3)تیسری قسم: ان الفاظ کی ہے جو ہبہ اور عاریت دونوں کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں ، جیسے کوئی شخص کسی سے کہے میں نے تم کو اس جانور پر سوار کیا تو اس میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جانور سے نفع اُٹھانے یعنی سواری کرنے کی اجازت دی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس جانور ہی کا مالک بنادیا، پہلی صورت میں عاریت ہے اور دوسری صوت میں ہبہ ہے [4]۔

ارکانِ ہبہ ترمیم

ہبہ میں مجموعی طور پر تین باتیں پائی جاتی ہیں

  • (1)ایجاب یعنی معطی کی طرف سے کسی شیٔ کے دینے کی پیشکش
  • (2)قبول
  • (3)قبضہ۔

بعض نے تعریف لکھی کہ ہبہ ایجاب وقبول سے منعقد ہوتا ہے اور قبضہ سے مکمل ہوتا ہے[5]

شرائطِ ہبہ ترمیم

ہبہ سے متعلق شرطیں چار طرح کی ہیں

  • (1)ایجاب وقبول سے متعلق شرطیں
  • (2)واہب یعنی ہبہ کرنے والے شخص سے متعلق شرطیں
  • (3)موہوب یعنی جو چیزیں ہبہ کی جارہی ہیں اس سے متعلق شرطیں
  • (4)موہوب لہ یعنی جس شخص کو ہبہ کیا جارہا ہے اس سے متعلق شرطیں جن کی تفصیل اس طرح ہے۔
  • پہلی قسم: یعنی ایجاب وقبول سے متعلق شرط یہ ہے کہ اس کو کسی ایسی بات کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو جس کے وجود اور عدم دونوں کا امکان ہو جیسے کہا جائے کہ میں نے ہبہ کیا بشرطیکہ فلاں شخص آجائے نیز ہبہ کو کسی وقت کی طرف منسوب نہ کیا گیا ہو کیونکہ ہبہ فی الفور مالک بنانے کا نام ہے۔
  • دوسری قسم: یعنی واہب سے متعلق شرط یہ ہے کہ وہ تبرع کا حق رکھتا ہو یعنی وہ عاقل، بالغ، آزاد اور موہوب کا مالک بھی ہو؛ لہٰذا نابالغ، پاگل، غلام کا ہبہ درست نہیں ہے۔
  • تیسری قسم: یعنی موہوب سے متعلق شرط یہ ہے کہ جو چیز ہبہ کی جارہی ہے وہ ہبہ کرنے کے وقت واہب کے پاس موجود ہو اور جس مال کو ہبہ کیا جارہا ہے وہ شریعت کی نگاہ میں قابل قدر وقیمت ہو؛ نیز وہ مال فی نفسہٖ شخصی ملکیت کے دائرے میں ہو اور واہب کی ملکیت میں ہو اگر موہوب قابلِ تقسیم ہو تو وہ تقسیم شدہ ہو مشترک نہ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ غیر موہوبہ شے سے پوری طرح فارغ ہو مشغول نہ ہو۔
  • چوتھی قسم: یعنی موہوب لہ سے متعلق شرط یہ ہے کہ موہوب پر اس کی طرف سے قبضہ ضروری ہے؛ کیونکہ حنفیہ اور شوافع کے نزدیک ہبہ کے تام ہونے کے لیے قبضہ ضروری ہے، ان کا مسلک حضرت ابوبکر وعمر، عبد اللہ بن عباس اور معاذ بن جبل رضوان اللہ علیہم وغیرہم کے فتاویٰ پر مبنی ہے، جب کہ مالکیہ کے نزدیک ہبہ کرنے والے کے ایجاب ہی سے اس کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے؛ پھر قبضہ کے لیے واہب کی اجازت ضروری ہے؛ خواہ اجازت صراحۃً ہو یااشارۃً اور قبضہ کے درست ہونے کے لیے قبضہ کرنے کی اہلیت بھی ہو یعنی موہوب لہٗ عاقل ہو [6]
  1. بہارشریعت ،حصہ14،ص64
  2. البحرالرائق:7/483
  3. ردالمحتار، علی الدرالمختار، کتاب الھبۃ:8/488
  4. فتاویٰ عالمگیری:4/375
  5. بدائع الصنائع:6/511۔
  6. البحرالرائق:7/483