شاعر

[1] خالد ثاقب 1952ء میں کوئٹہ میں ایک انتہائی غریب مستری(راج۔معمار) کے گھر میں پیداہوئے۔بی کام تک کوئٹہ میں تعلیم پائی اس کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ماسٹر اردو کیا اور عالم فاضل اردو بھی کیا۔ سرکاری نوکری کے لیے درجنوں محکموں میں درخواستیں جمع کیں لیکن شنوائی نہیں ہوئی آپ نے تھک ہار کے والد صاحب کے ساتھ مزدوری شروع کردی اور بڑی مشکل سے گذر بسر کرنے لگے پھر کسی دوست کے توسط سے روزنامہ (نعرہ حق کوئٹہ) میں قطعہ نگاری شروع کی جہاں سے کبھی کبھار کچھ تھوڑے سے پیسے بھی مل جاتے تھے۔آپ نے اخگر سہارنپوری سے اصلاح لی۔ جن کا سلسلہ داغ دہلوی سے ملتا ہے ان کا کلام ناصرف کوئٹہ کے تمام ادبی اخبارات و رسائل میں تواتر سے شائع ہوتا بلکہ لاہور۔کراچی۔اسلام آباد بلکہ انڈیا کے ادبی رسالے شمع دہلی میں بھی شائع ہوتاتھا۔اس کے علاوہ ادب لطیف کے تو آپ مستقل لکھاری تھے۔ ان کے والد کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد وفات پاگئے تو گھریلو تمام کی تمام ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آن پڑی اور تنگدستی کایہ زمانہ ایسا آیا کہ کسی نے بھی ساتھ نہ دیا بے انتہا مجبور ہوکے آپ کوئٹہ سے اپنے ایک شاعر دوست کے پاس منڈی بہاول الدین چلے گئے وہاں ان کو ایک پرائیویٹ ادارے میں اعزازی طور پر اردو کا نگران پروفیسر مقرر کردیاگیا لیکن ان کی تنخواہ مقرر نہیں کی گئی صرف رہائش اور کھانا اور کچھ معمولی وظیفہ مقرر کیاگیاآپ نے وہاں پانچ سال خدمات سر انجام دیں ۔ اس دوران ان کو گردوں کی بیماری لاحق ہو گئی اور اسہال آنا شروع ہو گئے اور بیمار ہونے پر منڈی بہاؤ الدین سے واپس کوئٹہ آنا پڑا جہاں ان کی والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہو چکا تھا اور وہ مکان جو کرائے کا تھا وہ چھوڑ دیا گیا تھا ان کی ایک ہمشیرہ شادی شدہ کوئٹہ میں رہتی تھی بہت مجبوری میں ان کے ہاں ٹھہرے لیکن ان کے بہنوئی نے ان کو دل سے قبول نہیں کیااور کئی مرتبہ گھر سے نکالنے کی دھمکیاں دیںایک مرتبہ ان کے شاگرد شاہد علی شاہد ان کی عیادت کو گئے تو ان کے بہنوئی نے شاہد علی شاہد کو کہا کہ اسے یہاں سے آپ لے جاؤ، مجبورا وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ بلوچستان کے سینیر شاعر عرفان الحق صائم ان کے دوست تھے انھوں نے ڈاکٹر علی دوست بلوچ جو خود بنیادیں اور کالم نگار ہیں ان سے سفارش کی اور ان کو سول ہسپتال کوئٹہ شعبہ امراض گردہ ومثانہمیں داخل کرا دیاجہاںعرفان الحق صائم اور تسنیم ضنمانت کی عیادت کو آتے تھے عرفان الحق صائم نے اس زمانے میں آٹھ سو روپے کی رقم ان کو دی کہ ہسپتال میں کوئی ضرورت کی چیزمنگوانا پڑے تو منگوالیں آپ کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو کسی ظالم نے وہ رقم جیب سے نکال لی اور پھر 20 اپریل 2009ء بروز پیر دوپہر دو بجے آپ اس جہاں سے کوچ کرگئے آپ استاد رشید انجم۔زاہد آفاق اور عرفان الحق صائم کے ہم عصر تھے اور شاہد علی شاہد کے استاد تھے،

حوالہ جات

ترمیم
  1. تحریر۔ڈاکٹر عبد الرشید آزاد (یہ تحریر خالد ثاقب کے شاگرد شاہد علی شاہد سے لی گئی معلومات پر مبنی ہے جس کی تصدیق بھی کی گئی ہے خالدثاقب1985 کی دہائی میں کوئٹہ کے اردو ادبکاایک چمکتا ستارہ تھا روزنامہ جنگ کوئٹہ۔روزنامہ مشرق کوئٹہ۔ روزنامہ نعرہ حق کوئٹہ اور دیگر اخبارات و ادبی رسائل میں ان کا کلام تواتر سے چھپتا تھا پھر وقت کی دھول نے انھیں گمنام کر دیا۔) ڈاکٹرعبدالرشید آزاد