خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے۔ اگرچہ صرف ایک بار الحمد اللہ یا سبحٰن اللہ یا لآ اٰلہ الا اللہ کہا، فرض ادا ہو گیامگر اتنے ہی پر اکتفا ء کرنا مکروہ ہے اور چھینک آئی، اس پر الحمد للہ کہا یا تعجب کے طور پر سبحٰن اللہ یا لآ الہ الا اللہ کہا تو فرض ادا نہ ہوا۔

خطبہ کا مسنون طریقہ ترمیم

خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں: خطیب کا پاک ہونا، منبر پر ہونا، خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا، خطبہ کے لیے سامعین کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہونا، خطبہ سے پہلے اعوذ باللہ آہستہ پڑھنا، اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں، الحمد سے شروع کرنا، اللہ عزوجل کی ثناء کرنا، اللہ عزوجل کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہات دینا، کم از کم ایک آیت تلاوت کرنا، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا، پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت ہونا اور دوسرے میں مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور حمد و ثنا و شہادت و درود کا اعادہ کرنا، دونوں خطبے ہلکے ہونا اور دونوں خطبوں کے درمیان بقدر تین آیت پڑھنے کے بیٹھنا۔

مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین و عمین مکر مین حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ تعالٰیٰ عنہم کا ذکر ہو۔

حاضرین جمعہ امام کی جانب متوجہ رہیں۔ جو شخص امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف منہ کرے اور دائیں بائیں ہو تو امام کی طرف مڑ جائے اور امام سے قریب ہونا افضل ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگے۔ حدیث میں ہے ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں، اس نے جہنم کی طرف پل بنایا‘‘ البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جا سکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے۔ خطبہ سننے کی حالت میں دوزانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں۔

جو چیزیں نماز میں حرام ہیں وہ سب خطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں مثلاً کھانا پینا سلام جوابِ سلام وغیرہ اور جب خطیب خطبہ پڑھے تو حاضرین پر سننا اور چپ رہنا فرض ہے، جو لوگ امام سے دور ہیں کہ خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی انھیں بھی چپ رہنا واجب ہے اور جب خطیب خطبہ کے لیے کھڑا ہو اس وقت سے ختم نماز تک و اذکار تلاوتِ قرآن اور ہر قسم کا کلام منع ہے البتہ صاحب ترتیب اپنی قضا نماز پڑ ھ لے۔ یونہی جو شخص سنت یا نفل پڑھ رہا ہے وہ جلد جلدہ پوری کر لے اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ پاک خطیب نے لیا تو حاضرین دل میں درود شریف پڑھیں۔ زبان سے پڑھنے کی اس وقت اجازت نہیں اور اگر کسی کو بری بات کرتے دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشارے سے منع کر سکتے ہیں، زبان سے ناجائز ہے۔ ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے۔

عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا سنتِ متواترہ اور مسلمانوں کے قدیمی طریقہ کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں عجم کے کتنے ہی شہر فتح ہو گئے، کئی ہزار مسجد یں بنائی گئیں، کہیں منقول نہیں کہ صحابہ نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں رومی، حبشی، عجمی ابھی تازہ حاضر ہوئے ہیں، عربی کا ایک حرف نہیں سمجھتے مگر کہیں ثابت نہیں کہ حضور نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو یا کچھ ان کی زبان میں فرمایا ہو، ایک حرف بھی ان کی زبان کا خطبہ میں منقول نہیں۔ اب رہا یہ اعتراض کہ پھر تذکیرووعظ سے فائد کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نوکری کے واسطے عمریں انگریزی میں گنواتے ہیں اور عربی زبان جو ایسی متبرک کہ اس میں ان کا قرآن، ان کا نبی عربی، ان کی جنت کی زبان عربی، اس کے لیے اتنی کوشش بھی نہ کریں کہ خطبہ سمجھ سکیں، اعتراض تو انھیں معترضین پر پڑے گا نہ کہ خطیب پر۔