خفاف نام، باپ کا نام ایماء تھا،نسب نامہ یہ ہے خفاف بن ایماء بن رحضہ بن حربہ ابن خفاف بن حارثہ بن غفار غفاری ان کے والد ایماء بنی غفار کے سرداروں میں تھے۔

حضرت خفاف ؓبن ایماء
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

اسلام ترمیم

خفاف کے گھر میں بہت ابتدا میں اسلام کی روشنی پھیلی ؛چنانچہ ہجرت سے بہت پہلے حضرت ابو زر غفاریؓ کی دعوت پر خفاف اوران کے والد ایماء مشرف باسلام ہوئے اوروہ غفار کے مسلمانوں کی امامت کرتے تھے [1] مشہور دشمن اسلام ابو سفیان کو خفاف کے اسلام کی خبر ہوئی تو بولا رات بنی کنانہ کا سردار بے دین ہو گیا۔ [2] خفاف اوران کے والد ایماء مقام عیقہ میں رہتے تھے اورقربت کی وجہ سے بکثرت مدینہ آیا جایا کرتے تھے اس لیے خفاف کا شمار مدنی صحابہ میں ہے۔ [3] 6ھ میں جب آنحضرت ﷺ عمرۃ القضا کے لیے نکلے اورمقام ابواء میں قیام فرمایا، تو ایما نے خفاف کے ہاتھ سو بکریاں اوردوبار شتر دودھ نذر بھیجا، آپ نے شکریہ کے ساتھ قبول فرمایا اوربرکت کی دعادی۔ [4]

غزوات ترمیم

کسی متعین غزوہ میں ان کی شرکت کی تصریح نہیں ملتی لیکن اس شرف سے محروم نہ رہے تھے ،حضرت عمرؓ نے ایک موقع پر خفاف کی لڑکی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ اس عورت کے بھائی اور باپ نے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تھا اور مدت کے بعد اس کو فتح کیا۔ [5]

وفات ترمیم

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں وفات پائی۔ [6]

اولاد ترمیم

موت کے بعد ایک لڑکا اورایک لڑکی یادگار چھوڑی،حضرت عمرؓ خفاف کے خدمات اسلامی کی وجہ سے ان کی اولاد کو بہت مانتے تھے، حضرت عمرؓ کے زمانہ میں خفاف کے داماد کا بھی انتقال ہوگیااور ان کی لڑکی سخت مصیبت میں مبتلا ہو گئی،ایک دن حضرت عمرؓ بازار جا رہے تھے ،راستہ میں ایک جوان عورت نے اُن سے کہا امیر المومنین! میرا شوہر مرگیا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، کھیتی اورمویشی کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، مجھ کو ڈر ہے کہ قحط ان بچوں کو ختم کردیگا، میں خفاف بن ایماء کی لڑکی ہوں، میرے باپ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، حضرت عمرؓ اس کی داستانِ غم سن کر ٹھہرگئے اور مرحبا بنسب کہہ کر اس کی دلدہی کی اس کے بعد گھر لیجا کر ایک مضبوط اونٹ لیا اس پردہ گونہ بھر کے کپڑا اورسامانِ خور و نوش بار کرکے اونٹ کی مہار اس عورت کے ہاتھ میں دی اورفرمایا اس کو لیجاؤ، جب تک خدا فارغ البالی نہ عطا کریگا، اس وقت تک یہ ذخیرہ چلے گا، ایک شخص نے اعتراض کیا کہ امیر المومنین! آپ نے ایک عورت کو اتنا دیدیا؟ فرمایا ثکلت امک کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اس کے بھائی اورباپ نے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تھا اورایک مدت کے بعد اس کو فتح کیا۔ [7]

حوالہ جات ترمیم

  1. (مستدرک حاکم:2/592)
  2. (اسد الغابہ:2/118)
  3. (ایضاً)
  4. (فتح الباری)
  5. (بخاری کتاب المغازی،باب غزوۂ حدیبیہ)
  6. (اصابہ،جلد2،صفحہ138)
  7. (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ حدیبیہ)