خلیفہ مطلق ایک خالص دینی و مذہبی اور روحانی اصطلاح ہے۔ خلیفہ کا مطلب ہے جانشین نائب یا امیر مطلق کا معنی ہے آزاد، مکمل

یعنی ایسا نائب یا جانشین جیسے مکمل اختیارات حاصل ہوں۔ یا جو مکمل نائب ہو۔

اسلامی دنیا میں خلیفہ یا امیر کسی بھی ملک کے بادشاہ کو کہتے ہیں۔

قرآن مجید فرقان حمید سے بھی ثابت ہے کہ انسان اس کائنات میں اللہ تعالی کا نائب و خلیفہ ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس کے احکامات پر پورے طور پر عمل کرے۔ اس کائنات میں حضور اکرم نور مجسم محمد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالی کے نائب کل اور خلیفہ مطلق ہیں۔

تصوف و طریقت میں یہ اصطلاح ایسے سالک کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جیسے اس کے شیخ یا مرشد کی طرف سے سلسلہ عالیہ کی شرائط پوری کی ہوں۔ مثلا اذکار و وظائف ،مراقبات، چلے یا مجاہدات وغیرہ پورے کیے ہوں اور سلسلہ کے تمام اوراد و وظائف کی ،اذکار کی ،بیعت کرنے اور آگے خلافت دینے کی اجازت و اذن حاصل ہو۔جب سالک و مرید کا مرشد یہ جان لے کہ یہ سالک اب آگے بھی فیض دے سکتا ہے۔ اس نے روحانی مدارج طے کر لیے ہیں۔ اور اس قابل ہے کہ آگے اپنے مریدین کی راہنمائی کر سکے گا تو اسے خلافت مطلق عطا کی جاتی ہے۔

صوفیا و اولیاء عظام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ انھوں نے مختلف ادوار میں کی لوگوں کو تیار کیا دین اسلام کی تعلیم اور روحانی فیض عطا کر کے خلافت سے سرفراز کیا اور ان خلفاء کو دنیا کے مختلف خطوں میں عوام الناس کی راہنمائی کی لیے بھیجا۔ اسلام ان ہی بزرگان دین کی بدولت دنیا میں پھیلا اور یہ فیضان آج تک جاری و ساری ہے۔