سید ولایت حسین (خمار دہلوی) (1911ء تا 1976ء) 6 جنوری 1911ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک ادبی و مذہبی سادات گھرانے سے تھا، آپ سید عنایت حسین کے فرزند اور مشہور ادبی شخصیت (میر سید ناصر علی) کے نواسے ہیں۔ آپ کے والدِ (سید عنایت حسین) درگاہ (سید حسن رسول نمائی) کے سجادہ نشین بھی تھے۔ سید ولایت حسین خمار دہلوی کی مشقِ سخن کا دور آپ کی کم عمری سے شروع ہوا جو تا دمِ آخر اسی کی آب وتاب سے قائم رہا۔

آپ دبستانِ دہلی کے آخری شعرا میں سے ہیں آپ ایک قادر الکلام شاعر اور ادیب تھے آپ کے کلام کی شیریں بیانی کی وجہ سے آپ کو (طوطئ دہلی) کے لقب سے نوازا گیا۔ خمار دہلوی، نے 1931 میں اردو ادب کا مشہورِ زمانہ رسالہ (شاہجہان) کا اجرا کیا جو تقسیمِ ہند تک جاری رہا۔

آپ کا کلام (بیاضِ خمار دہلوی) کے نام سے اشاعت کے مراحل میں ہے

آپ کا ایک یادگار شعر جو آپ نے بسترِ مرگ پر کہا،،

تم آئے بھی تو بہرِ عیادت اب آئے ہوجب آفتابِ عمرِ تمنّا ہی ڈھل گیا

سید ولایت حسین خمار دہلوی ایام جوانی میں۔
خمار دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف شاعر بلکہ ایک نابغہ روزگار تھے۔ آپ اعلان تقسیم پاک و ہند کے وقت لاہور میں آل انڈیا ریڈیو کی جانب سے ایک تربیتی ورکشاپ میں شریک تھے۔ جونہی اعلان کا معلوم ہوا تو پاکستان رہنے کے ارادے سے زوجہ محترمہ جنابہ ثریا بانو کو تار بھیجی کے میں ڈاک کی گاڑی کے ہمراہ پہنچ رہا ہوں۔ آپ ضروری سامان تیار رکھیے۔ ہم پاکستان رہیں گے۔ یوں جنابہ ثریا بانو ہمراہ صاحبزادگان۔ سید صولت حسین شاہ، سید طارق حسین شاہ کو لیے ہمراہ جنا ب سید ولایت پاکستان تشریف لے آئیں۔

سید ولایت حسین خمار دہلوی یہاں لاہور چند ماہ رکے پھر ریڈیو راولپنڈی میں تعینات کر دیے گئے۔ پھر بحکم سرکار کشمیر تشریف لے گئے ریڈیو تراڑ کھل کی بنیاد رکھی۔بعد ازاں اس ریڈیو کو مظفر آباد منتقل کیا گیا جہاں سید ولایت حسین شاہ صاحب اور آپ کی زوجہ محترمہ ثریا بانو اس کی بنیادی ٹیم کا حصہ بنے۔ آزادکشمیر کے آفیشل ریڈیو کی پہلی آواز جو لوگوں نے سنی وہ آپ ہی کی تھی۔ علاوہ ازیں آزادکشمیر میں ادبی محافل کا انعقاد کروایا۔ اور تحریک نفاذ اردو کی بنیاد رکھی۔ اور آزادکشمیر کی سرکاری زبان اردو نافذ کروائی۔

سید ولایت حسین خمار دہلوی ، شاہد دہلوی، اخلاق دہلوی ، رئیس امروہوی، کے ہم عصر تھے۔ بلکہ اکثر اکھٹے ہی محافل و تقاریب میں دیکھے جاتے۔

سید ولایت حسین خمار دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک باصلاحیت شخصیت تھے۔ آپ نے انجمن ترقی اردو آزادکشمیر کی بنیاد رکھی۔ اور مختلف جگہوں پر اس کے سیمینار کروائے۔ دن رات کی محنت کے صلہ میں حکومت آزادکشمیر نے سرکاری زبان اردو کا نافذ کر دیا۔

سید ولایت حسین خمار کی ازدواجی زندگی

سید ولایت حسین خمار دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے دو شادیاں کیں۔ آپ نے پہلی شادی ایک عیسائی عورت کو مسلمان کر کے اس سے کی۔ وہ عیسائی عورت مذہب عیسائیت میں بہت ملکہ رکھتی تھی۔ حضرت شاہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خداداد صلاحیتوں سے نوازا۔ اس عورت نے ڈھیروں سوال کیے جن کے جوابات حضرت شاہ صاحب نے دیے۔ تو وہ آپ کی شخصیت سے مرعوب ہو گئی۔ اور مسلمان ہوکر آپ کے نکاح میں آئی۔ اس واقعہ کی خبر اس وقت انگلستان تک پھیلی ۔ لندن سے ایک بہت بڑا پادری جو مذہب عیسائیت میں علم کا بادشاہ مانا جاتا تھا، سید ولایت حسین خمار دہلوی سے ملنے درگاہ سید حسن رحمۃ اللہ علیہ آیا۔ اور مناظرے کی دعوت دی۔ آپ نے فرمایا تم پوچھو میں بتاوں گا، حتی کہ کئی گھنٹے مناظرہ چلتا رہا اور آخر کار لاجواب ہو گیا اور پھر حضرت شاہ صاحب کو لالچ دینے لگا کہ میں آپ کو تاج برطانیہ سے خوب دولت اور عزت لے کردوں گا آپ مذہب عیسائیت قبول کر لیں اور ہمارے مذہب کے لیے کام کریں کیونکہ آپ کے پاس علم ہم سے زیادہ ہے۔ اس پر قبلہ شاہ صاحب نے فرمایا میں نے یہ علم کتابوں سے نہیں پڑھا بلکہ اپنے بزرگوں سید حسن رسول نما قادری اویسی کی نگاہ برکت سے حاصل کیا۔ تم مجھے دنیا کا لالچ دے رہے ہو ہم سادات خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہیں۔ ہم تمھاری لالچ میں نہ آئیں گے۔ پھر ناچار گھٹنو ں بیٹھ گیا اور آپ کی شیروانی کو چوم کر کہنے لگا مجھے یہ شیروانی ہی تحفہ کر دیں۔ شاہ صاحب مسکرائے اور شیروانی اس عیسائی راہب کو دے دی۔ سید صاحب کی یہ زوجہ چند سال بعد ہی حادثے کا شکار ہو کر انتقال کر گئیں۔ آپ سے ایک بیٹی ہوئی ، جن کی اولاد اولا راولپنڈی میں رہی بعد ازاں شادیاں کر کے باہر چلے گئے۔

سید صاحب کی دوسری شادی محترمہ ثریا بانو سے ہوئی۔ موجودہ خانواد ہ سید حسن رسولنما اویسی انہی کی اولاد ہیں۔ سید صولت حسین، سید طارق حسین، سیدہ راحت بانو، سید شارق حسین ، سید خالد حسین ۔ آپ کی اولاد اسلام آباد اور کراچی میں موجود ہے۔

شاہ صاحب کی ادبی خدمات

حضرت شاہ صاحب کی علمی خدمات بہت ہیں جو ساتھ ساتھ شامل کی جائیں گی۔

حوالہ جات

ترمیم