خناس
خناس کا معنی ہے : پیچھے ہٹ جانے والا، چھپ جانے والا، یہ لفظ "خنس" سے بنا ہے، اس کا معنی ہے : پیچھے ہٹنا اور چھپ جانا، قرآن مجید میں ہے : میں چھپنے والے (ستاروں) کی قسم کھاتا ہوں۔[1] یہ ستارے دن کے وقت چھپ جاتے اور نظر نہیں آتے یا اپنے منظر سے پیچھے ہٹ جائے ہیں۔ "خناس" مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ شیطان کا لقب ہے، جب انسان غافل ہو تو یہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور جب انسان اللہ کو یاد کر رہا ہو تو یہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جیسے ہی اللہ کی یاد سے رک جائے تو پھر وسوسہ ڈالنے آجاتا ہے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ شیطان ابن آدم کے قلب پر بیٹھا رہتا ہے، جب اس کو سہو ہو یا غفلت ہو تو وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور جب وہ اللہ کا ذکر کرے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔[2] ابن زید نے کہا : "خناس" وہ ہے جو ایک بار وسوسہ ڈالتا ہے اور دوسری بار پیچھے ہٹ جاتا ہے اور موقع کا انتظارکرتارہتا ہے اور یہ شیطان الانس ہے، یہ انسانوں پر شیطان الجن سے زیادہ شدید ہوتا ہے، شیطان الجن وسوسہ ڈالتا ہے اور تم اس کو دیکھتے نہیں ہو اور شیطان الانس کو تم دیکھتے رہتے ہو۔[3][4] خنس وخنوس کا معنی ہے چپکے سے پیچھے ہٹنا۔ شیطان کا طریقہ اور معمول یہ ہے کہ اللہ کی یاد کے وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے اس لیے اس کو خناس فرمایا۔ الوسواس الخناس کی وضاحت فرماتے ہوئے صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں:۔ جب کوئی شخص کسی کو اس کی افتاد طبع کے خلاف کسی کام پر اکساتا ہے تو اس کا پہلا رد عمل شدید ہوتا ہے اور وہ بڑی حقارت سے اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ ہر وسوسہ انداز اصرار نہیں کرتا بلکہ پیچھے کھسک جاتا ہے بظاہر پسپائی اختیار کرتا ہے۔ پھر موقع ملنے پر وہی بات کانوں میں ڈالتا ہے اگر پھر بھی وہ تیوری چڑھائے تو وہ دبک جاتا ہے یہ تسلسل جاری رہتا ہے آہستہ آہستہ اس کا رد عمل کمزور ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ دن آجاتا ہے کہ یہ شخص جس بات پر پہلی بار برا فروختہ ہو گیا تھا وہ خود لپک کر اس کی طرف بڑھتا ہے۔ شیطان کا یہی طریقہ ہے کہ وہ انسان کو گمراہ کرتے تھکتا نہیں بلکہ لگاتار اپنی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ کبھی حملہ کرتا ہے کبھی پسپائی اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑے سے بڑے زیرک انسان کو بھی اگر اسے اپنے رب کی پناہ حاصل نہ ہو تو چاروں شانے چت گرا دیتا ہے اس کی ان دونوں چالوں کو وسواس اور خناس کے الفاظ استعمال کرکے بیان کر دیا۔[5]