خواجہ سید عبد الباسط خواجہ سید شاہ حسین کے بیٹے ہیں۔ والد سے ہی نقشبندیت کا فیض پایا علم و عمل اور سلوک و معرفت میں کامل تھے نقشبندیت کی کہیں سے بھی کوئی فیض کی کرن نکلتی دیکھ کر ادھر کا رخ کرلیایہاں تک کہ ترکستان تک جا پہنچے کہ وہاں نقشبندیت کی خوشبو صدیوں پر محیط تھی ہجرت گاہ کو ہی وطن بنا لیا اور وہاں پر ہی تعلیم معرفت کی بساط بچھا لی حتی کہ وہاں ہی انتقال فرمایا کہا جاتا ہے کہ تاتار جو ترکستان کا ایک گاؤں ہے وہاں پر مزار ہے۔ خواجہ عبد الباسط کی زندگی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ بزرگ کس طرح معلوم دنیا کے گوشے گوشے دین کی تبلیغ اور مخلوق خدا کی ہدایت کے لیے پھرتے تھے تاکہ دنیا کا کوئی کونہ ہدایت کی روشنی سے محروم نہ رہ جائے اس حوالے سے انھیں بہت سی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا مگر انھیں اپنی ذات کی تکلیف کی پروا نہ تھی مشن تھا تو صرف یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا پیغام سب تک پہنچے اور کوئی بھی نا رسائی کا شکوہ نہ کرے اس لیے خواجہ عبد الباسط نے اپنی ذات کے اظہار سے بے نیاز ہو کر تبلیغ دین کا کام کیا یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل سفر میں رہے ہیں اور جہاں بھی گئے دین کا پیغام پہنچاتے رہے شاید یہی سبب ہے کہ ان کے مزار کے بارے میں بھی مختلف آراء ہیں[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. جمال نقشندڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صفحہ 344،جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد