خونی پتھر (ناول)
خونی پتھر جاسوسی دنیا سلسلے کا سولہواں ناول ہے۔ جاسوسی دنیا میں، یہ انور سیریز کا چوتھا ناول ہے۔[1]
مصنف | ابن صفی |
---|---|
اصل عنوان | خونی پتھر |
ملک | پاکستان |
زبان | اردو |
سلسلہ | جاسوسی دنیا |
صنف | ناول، (جاسوسی ادب) |
ناشر | اسرار پبلی کیشنز |
تاریخ اشاعت | 1953ء |
طرز طباعت | کارڈ کور |
صفحات | 86 |
کردار
ترمیم- انور سعید: روزنامہ اسٹار کا کرائم رپورٹر اور نجی جاسوس۔
- رشیدہ: اسٹار اخبار کی ٹائپسٹ اور انور کی دوست۔
- انسپکٹر آصف: سرکاری جاسوس۔
- پروفیسر تیموری: ماہر ارضیات اور شہر کا ایک امیر آدمی جو قیمتی پتھروں میں دلچسپی رکھتا ہے۔
- گلوریا تموتھی: نکولس کی ہونے والی بیوی۔
- حامد: پروفیسر تیموری کا سیکرٹری
- نکولس: پروفیسر تیموری کا ایک مسیحی دوست، جس کا تار جام کے علاقے میں پتھروں کا شو روم ہے۔
- قدیر: روزنامہ پوسٹ مارٹم کا ایڈیٹر۔
- مسٹر پی-داس: پروفیسر تیموری کا قانونی مشیر۔
- سر صغیر احمد: نیشنل بینک کا ڈائریکٹر اور پتھروں کا شوقین۔
- رابعہ صغیر: سر صغیر احمد کی بیٹی۔
- وجے کمار: مدراس کا مشہور بدمعاش۔
- جے-بی سنگھ: قدیر نے جے-بی سنگھ کا نام اختیار کر کے پروفیسر کی خواب گاہ کا سامان خریدنے کی پیشکش کی تھی۔
پلاٹ
ترمیمایک لڑکی انور کو سونا گھاٹ کے علاقے میں پروفیسر تیموری کی کوٹھی پر پتھروں کے شو کیس میں ایک سیاح پتھر رکھنے کے لیے کوٹھی کی کنجیاں دیتی ہے اور اسے آج رات پروفیسر اور اس کے سیکرٹری کی غیر موجودگی کی یقین دہانی کراتی ہے۔ دراصل پروفیسر اپنے دوست نکولس سے ملنے تار جام گیا ہوتا ہے۔ لڑکی انور کو کل اسی وقت دوبارہ ملنے کا کہتی ہے۔ انور نے محسوس کیا کہ اتنی آسانیاں ہونے کے باوجود اسے پتھر واپس رکھنے بھیجنا ضرور ایک چال ہے لہذا وہ تار جام روانہ ہوتا ہے اور تار جام سے تین میل پہلے ہی اسے نکولس کا شو روم نظر آگیا۔ یہیں انور کی ملاقات پروفیسر سے پہلی مرتبہ ہوئی۔ پروفیسر نے انور کو پہچان لیا اور انسپکٹر آصف کو اپنے مکان کی حفاظت کے لیے فون کر دیا۔
رات کو انور نے سونا گھاٹ جا کر سیاہ پکھراج پروفیسر کے شو کیس میں رکھ دیا۔ انور واپس مڑا ہی تھا کہ اسے پروفیسر کی لاش دکھائی دی۔ اتنے میں انسپکٹر آصف کی آواز سنائی دی اور انور نکل بھاگا۔ صبح انسپکٹر آصف، انور سے اس بارے میں بات چیت کر کے سونا گھاٹ جاتا ہے۔
انور آج مقررہ وقت پر ہوٹل پہنچا تو اسے ایک مرد ملا جو پروفیسر تیموری کی کوٹھی کی کنجیوں کی واپسی چاہتا تھا۔ انور کے انکار پر اس نے سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ اس کے بعد انور ایک ریستوران میں کافی پینے کے لیے رکا تو اسے وہی عورت نظر آئی، جس کی تصویر اس نے رات کو پروفیسر تیموری کے سونے کے کمرے میں دیکھی تھی اور اس نے خوشبو بھی وہی لگائی تھی جس سے پروفیسر تیموری کا کمرہ کل رات مہک رہا تھا۔ لیکن وہ عورت بضد تھی کہ اس کی پروفیسر تیموری سے ملاقات تقریباً دس روز قبل ہوئی تھی۔ اس کا نام گلوریا تموتھی تھا۔ انسپکٹر آصف نے نکولس کو شبہ کی بنا پر گرفتار کر لیا۔
پروفیسر کے سیکرٹری نے سیاہ پکھراج کو تجوری میں رکھوا دیا۔ اس نے انور کو بتایا کہ یہ پتھر مہمانوں کو دکھانے کے لیے تجوری سے نکالا گیا تھا، جن میں سر صغیر احمد بھی تھا۔ اس کے بعد سے اب تک شو کیس میں ہی پڑا رہا تھا۔ دوسری طرف رشیدہ کو معلوم ہوا کہ ہوٹل میں انور سے ملاقات کرنے والی لڑکی سیکرٹری کی کار پر آئی تھی اور وہ سر صغیر احمد کی بیٹی رابعہ صغیر ہے۔ گلوریا انور کو اپنے گھر بلاتی ہے۔ وہاں سر صغیر احمد پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد گلوریا بتاتی ہے کہ اس کی شادی نکولس سے ہونے والی ہے۔ انور کو سیکرٹری کی زبانی، رابعہ اور سیکرٹری کے تعلقات کا علم ہوتا ہے۔ سیکرٹری نے بتاتا ہے کہ مہمانوں کو سیاہ پکھراج دکھائے جانے کے بعد وہ غائب ہو گیا تھا۔ جب پروفیسر تیموری تار جام روانہ ہوا تو وه رابعہ سے ملنے نشاط نگر چلا گیا اور رات وہیں گزاری۔ وہ مزید کہہ رہا تھا کہ چور سے ناواقف ہے اور اسے پھانسی دے دی جائے تاکہ رابعہ بدنامی سے بچ جائے۔ انسپکٹر آصف نے بتایا کہ سر صغیر احمد وجے کمار کو ہوٹل تک نشے کی حالت میں چھوڑ کر گیا اور اس کے بعد کمرے سے اس کی لاش ملی۔ اس نے نکولس پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو ہتھوڑا پروفیسر تیموری کی موت کا باعث بنا وہ نکولس کا ہے جبکہ انور کا شبہ سر صغیر احمد پر تھا۔
پروفیسر تیموری کے بھائی نے مسٹر پی-داس کو پروفیسر کا سارا اثاثہ بیچ ڈالنے کا کہہ دیا۔ جے-بی سنگھ نامی ایک شخص پروفیسر کی خواب گاہ کا سامان خریدنے پر راضی ہو گیا جبکہ سیکرٹری نے سیاہ پکھراج کو نیشنل بینک میں رکھوا دیا۔ انور رشیدہ کو قدیر کے پاس بھیجتا ہے جو روزنامہ پوسٹ مارٹم میں امیر لوگوں کے راز افشا کر کے ان سے رقم بٹورتا تھا۔ رشیدہ روزنامہ کے پرانے شماروں سے پروفیسر تیموری کے متعلق معلومات بہم پہنچاتی ہے اور شہر کے بنکوں سے معلوم کرتی ہے کہ کسی نے جے-بی سنگھ کے نام سے رقم تو جمع نہیں کروائی۔ آخر کار اسے کامیابی ملتی ہے۔ اگلی صبح رشیدہ نے ساری رپورٹ انور کے سامنے پیش کر دی۔ انور رات کو گلوریا کو شراب پلا کر اس سے سب گچھ اگلوا آیا تھا۔ اسے پتہ چلا کہ سیاہ پتھر کا قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا وہ پروفیسر کے کمرے کی تلاشی لینے چلا گیا تھا۔ وہاں سے اس کے ہاتھ بہت ہی کام کی چیز لگی تھی۔ دراصل قدیر کے ہاتھوں ایک قتل ہو گیا تھا اور پروفیسر نے اس شرط پر اس قتل کو راز رکھا کہ قدیر اس کے متعلق اپنا منہ نہ کھولے اور قتل کا اقرار نامہ لکھوا لیا۔ انور صبح اٹھتے ہی، رشیدہ کو ساتھ لے کر قدیر کے گھر پہنچ گیا۔ قدیر نے دونوں کو نشہ آور دوا پلا کر ایک کمرے میں باندھ دیا۔ بڑی کوششوں کے بعد انور رسی کو چاقو کی مدد سے کاٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی دوران اس کی کلائی پر چاقو لگ گیا۔ وه دونوں دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگے اور قدیر کے داخل ہوتے ہی اس پر ٹوٹ پڑے۔
اگلے روز انور کے اخبار نے اس گرفتاری کا صحیح واقعہ چھاپا اور انسپکٹر آصف کو ایک بار پھر شکست کھانی پڑی۔
انور سر صغیر احمد کے گھر پہنچا اور اس سے پانچ ہزار روپے طلب کیے کیونکہ اس کی بیٹی کے کہنے پر ہی انور سیاہ پکھراج کو واپس پروفیسر کے شو کیس میں رکھنے گیا تھا۔
دراصل سر صغیر احمد نے وجے کمار سے چوری کا سیاہ پکھراج خریدا اور اسے گلوریا تموتھی کے پاس امانتاً رکھوا دیا۔ پروفیسر نے نکولس سے قرض لینا تھا لہذا یہ سیاہ پکھراج پروفیسر کے پاس بطور ضمانت رکھوایا گیا۔ پروفیسر نے اس نایاب پتھر کی نمائش کے لیے مہمانوں کو اپنے ہاں بلوایا اور ان میں رابعہ صغیر اور سر صغیر احمد بھی تھے۔ سر صغیر احمد نے وجے کمار کے ذریعے پتھر دوبارہ حاصل کیا لیکن رابعہ سمجھی کہ یہ پتھر پروفیسر کا ہے لہذا اس نے پتھر واپس پہنچانے کی ٹھانی اور اس کام کے لیے انور کی خدمات حاصل کیں۔ سر صغیر احمد، گلوریا تموتھی پر خوب برسا اور وه نکولس کا ہتھوڑا لے کر پروفیسر کے مکان سے سیاہ پکھراج چرانے پہنچ گئی۔ اسی وقت پروفیسر کا قاتل، اس قدیر کی جانب سے کیے گئے قتل کا اقرار نامہ چرانے پروفیسر کے مکان میں داخل ہوا۔ گلوریا تموتھی ہتھوڑا چھوڑ کر بھاگ نکلی۔ اسی اثناء میں پروفیسر تار جام سے واپس پہنچ گیا اور قاتل کے ہاتھوں نکولس کے ہتھوڑے سے قتل ہو گیا۔ عین اسی وقت وجے کمار، سر صغیر احمد کے لیے سیاہ پکھراج چرانے پہنچ گیا۔ اس نے قاتل کو بلیک میل کرنے کی دھمکی دی لہذا اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ اس سب کے بعد انور سونا گھاٹ پہنچا اور پروفیسر کے شو کیس میں پتھر واپس رکھ دیا۔ انور ابھی کمرے میں ہی موجود تھا کہ انسپکٹر آصف آن پہنچا اور انور بمشکل بھاگ نکلا۔ اس موقع پر انور کی ذرا سی غلطی اس کی پھانسی کے پھندے تک کی راہ ہموار کر سکتی تھی۔
تنقید
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ جاسوسی دنیا نمبر 16، خونی پتھر، پیش لفظ