ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے، ہر تندرست فرد، ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے۔ جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آ جاتا ہے، اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ انھیں جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوتی ہے۔ لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے۔ کیونکہ بہت سی مہلک بیماریاں جیسے ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض انتقال خون کی وجہ سے ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتے ہیں۔

تاریخ

ترمیم

3 جون سنہ 1667 کو طب اور سرجری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی انسان کو خون دینے کا کام انجام پایا۔ یہ عمل ایک فرانسیسی ڈاکٹر جان باپٹسٹ ڈینس نے انجام دیا۔ مریضوں کو خون دینے کے عمل سے طب کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہوا کیونکہ اس وقت تک بہت سے مریض خون کی کمی یا بدن سے زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے۔ اس فرانسیسی طبیب نے اپنے پہلے تجربے میں ایک بکری کے بچے کا خون انسان کے بدن میں داخل کیا لیکن اس کے بعد مریضوں کو انسان کا خون دیا جانے لگا ۔ یورپ میں آپس کی جنگوں کے دوران ایک فرانسیسی نے انتقال خون کی پہلی کوشش کی لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔ اس وقت تک خون کے گروپ اے، بی، اے بی اور او کا علم نہیں ہوا تھا اور نہ ان کی ذیلی مثبت اور منفی اجزا کا علم تھا۔ جیسے جیسے طبی علوم میں ترقی ہوتی رہی، خون کے گروپ، ان کے دیگر فیکٹرز اور ان میں مطابقت کا انکشاف ہوتا رہا کہ کون سے گروپ والا کس فیکٹر کے حامل کو خون عطیے میں دے سکتا ہے۔ جس سے کہ متعلقہ فرد کے بدن میں کوئی رد عمل نہ ہو۔1930 میں انتقال خون کے سلسلے میں سکی فوسو کی انسٹی ٹیوب آف میڈیکل سائنس نے ماسکو میں ایک انوکھا تجربہ کیا، ایک ساٹھ سالہ فرد، جو ایک حادثے میں مر چکا تھا، 12 گھنٹے کے اندر اس کا خون ایک ایسے نوجوان کے بدن میں منتقل کرکے اس کی جان بچا لی گئی، جس نے اپنی دونوں کلائیاں کاٹ کر خود کشی کی کوشش کی تھی، اسی طرح پھر 1933 میں میو کلینک، انگلستان میں کیمکل اسٹریٹ ڈالا ہوا خون مریضوں میں منتقل کیا گیا۔ 1936ء میں اسپین میں خون بینک کی موبائیل وین کے ذریعے خون اسپتالوں میں پہنچایا جانے لگا۔ ان موبائل وینز میں خون کو دیر تک کارآمد رکھنے کے آلات لگے ہوئے تھے۔1939 میں انگلستان کے ایک ڈاکٹر فلپ نے کون میں اینٹی باڈی کا موروثی طور پر منتقل ہونا دریافت کیا۔ 1940 میں ڈاکٹر ایڈنون کوہن نے خون کے مختلف حصوں مثلاً پلازما اور سرخ خلیوں کو علاحدہ کرنے، اسٹور کرنے کے طریقے معلوم کیے۔ پھر 1941 میں ریڈ کراس نے بلڈ بنیک کے قیام کا آغاز کیا، اس کے بعد 1943 میں ڈاکٹر پال بی سن نے انکشاف کیا کہ یرقان یا یرقان یا ہیپاٹائٹس کے امراض کا خون ایسے امراض سے مبرا مریضوں میں منتقل کرنے سے ان میں عطیہ خون کے ساتھ عطیہ امراض بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ 1948ء میں ڈاکٹر کیپری والٹر نے خون کی بوتلوں کی جگہ پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال شروع کیا۔

بلڈ بینک

ترمیم

دنیا کے پہلے خون کے بینک کے قیام کا سہرا ایک کینڈین ڈاکٹر نارمل ہیتھیون کے سر ہے، جس نے ہسپانوی جنگ کے دوران اسے قائم کیا، اس کے بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران بینک میں اسٹور کیے گئے خون کو زخمیوں کی جان بچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ البتہ باقاعدہ رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات اسٹورکرنے کے لیے پہلا خون بینک 1922 مین انگلستان میں قائم ہوا تھا۔ سوویت یونین دنیا کا پہلا ملک تھا، جس نے اسپتالوں میں داخل مریضوں کو فراہمی خون کے لیے دنیا کا پہلا خون بینک قائم کیا۔

== مزید دیکھیے ==* بلڈ گروپ* خون کی بوتل