خیار عیب
خیارِعیب بائع(بیچنے والے) کا مبیع(بیچی گئی چیز) کو عیب بیان کیے بغیر بیچنا یا مشتری (خریدار)کا ثمن (قیمت)میں عیب بیان کیے بغیر چیز خریدنااور عیب پر مطلع ہونے کے بعداس چیز کے واپس کردینے کے اختیار کو خیار عیب کہتے ہیں۔[1]
عیب کی تعریف
ترمیمعرف شرع میں عیب جس کی وجہ سے مبیع کو واپس کرسکتے ہیں وہ ہے جس سے تاجر وں کی نظر میں چیز کی قیمت کم ہوجائے۔ [2]
- کُلُّ مَا أوْجَبَ نُقْصَانَ الثَّمَنِ فِيْ عَادَۃِ التُّجَّارِ فَہُوَ عَیْبٌ [3]
- ہر وہ چیز جو تاجروں کے عرف و عادت میں ثمن میں نقصان ثابت کرے وہ عیب ہے۔
خیارِعیب کے شرائط
ترمیمخیار عیب کے لیے یہ شرط ہے کہ
- (1) مبیع میں وہ عیب عقد بیع کے وقت موجود ہویا بعد عقد، مشتری کے قبضہ سے پہلے پیدا ہو، لہٰذا مشتری کے قبضہ کرنے کے بعد جو عیب پیدا ہوا اُس کی وجہ سے خیار حاصل نہ ہوگا۔
- (2)مشتری نے قبضہ کر لیا ہو تو اس کے پاس بھی وہ عیب باقی رہے اگر یہاں وہ عیب نہ رہا تو خیار بھی نہیں۔
- (3)مشتری کو عقد یا قبضہ کے وقت عیب پر اطلاع نہ ہوعیب دار جان کر لیا یا قبضہ کیا خیار نہ رہا۔
- (4)بائع نے عیب سے براء ت نہ کی ہو اگر اُس نے کہدیاکہ میں اس کے کسی عیب کا ذمہ دار نہیں خیار ثابت نہیں[4]
خیار عیب کب نہ ہوگا
ترمیمکوئی چیز بیع کی اور بائع نے کہدیا کہ میں ہر عیب سے بری الذمہ ہوں (میں ہرعیب کی ذمہ داری سے بری ہوں)یہ بیع صحیح ہے اور اس مبیع کے واپس کرنے کا حق باقی نہیں رہتا۔ یوہیں اگر بائع نے کہدیا کہ لینا ہو تو لو اس میں سو طرح کے عیب ہیں یا یہ مٹی ہے یا اسے خوب دیکھ لو کیسی بھی ہو میں واپس نہیں کروں گا یہ عیب سے براء ت ہے۔ ( اگراب عیب نکلاتوبیچنے والے پرلازم نہیں کہ وہ چیزواپس لے)جب ہر عیب سے براء ت کرلے تو جو عیب وقت عقد موجود ہے یا عقد کے بعد قبضہ سے پہلے پیدا ہوا سب سے براء ت ہو گئی۔[5]