دائی لاڈو مسجد
دائی لاڈو مسجد مائی لاڈو کے نام سے جانی جانے والی مسجد جس کی بانیہ مُغل عہد میں شاہی خاندان کی ایک قابلِ احترام دایہ تھیں۔
بانیہ کا دور
ترمیممغل عہد کی عہد اکبری یا عہدِ جہانگیری کنہیا لال ہندی اسے شہزادہ سلیم کو دودھ پلانے والی دایہ لکھا۔ جبکہ بعض کے نزدیک اُن کا تعلق عہدِ جہانگیری سے ہے اورشاہ جہاں( شہزادہ خرم) بھی انھی کے ہاتھوں پیدا ہوا لاڈو نامی اس دایہ کے شوہر کا نام محمد اسمٰعیل تھا اور اُن کے بیٹے کا نام محمد شکور تھا جو اس مسجد کے پہلے نگران مُقرر کیے گئے تھے۔ جس مقام پر یہ مسجد واقع ہے، مغل دورِ حکومت میں اس جگہ کو ’’محلہ ٹِلا‘‘ کے نام سے پُکارا جاتا تھا اور اسی طرح دایہ لاڈو کے نام سے معروف ایک محلہ بھی قائم ہوا۔ جس کا تذکرہ کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (صفحہ 109) پر کیا ہے۔
مسجد کی خصوصیات
ترمیمدائی لاڈو کے نام سے منسوب یہ قدیم مسجد اپنی قدامت اور خوبصورتی کے باعث ایک قومی ورثہ ہے اورنگ زیب عالمگیر کے وقت تک، یہ مسجد اپنے جاہ و جلال کے ساتھ قائم و دائم رہی۔ مسجد کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی اپنی کتاب تاریخ لاہور (صفحہ 310) میں تحریر کرتے ہیں کہ"’’یہ مسجد پختہ چونے کی عمارت سے نہایت مضبوط بنی ہوئی ہے۔ تین محرابیں اور ایک گنبد عالی شان۔ سقف قالبوتی ہے صحنِ مسجد میں پختہ فرش ہے اور پختہ حوض ہے مگر حوض اب بند ہے اور صحن کے شرق کی سمت دائی لاڈو کی ایک پختہ قبر بنی ہوئی ہے۔بیرونی چار دیواری پختہ مہر شاہ فقیر نے بنوائی ہے۔ پہلی عمارت سوائے مسجد کے باقی نہیں رہی۔ چھوٹا چاہ جو اب مسجد کے جنوب کی سمت کو ہے، ہندو فقیر نے کھدوایا تھا۔پہلا چاہ و عمارت متعلقہ مسجد سب کنہیا مل کمپو والا نے، جس کا باغ شمال کی طرف ہے، سب گرا دی تھی اور قدیمی چاہ کی اینٹیں نکلوا لی تھیں۔ اب اس کا نشان بھی باقی نہیں ہے۔‘‘
تاریخی ادوار
ترمیمدایہ لاڈو کا انتقال 1659ء میں ہوا۔ اس تاریخ کی شہادت کنہیا لال ہندی کے مسجد پر تحریر کردہ مضمون کے حاشیئے سے بھی ملتی ہے۔ دایہ لاڈو کی وفات کے بعد انھیں اِسی مسجد کے صحن میں دفن کر دیا گیا تھا۔ عہد حاضر میں مسجد کے قریب ہی رتن چند روڈ پر واقع لیڈی ایچیسن ہسپتال کی مشرقی سیدھ میں ایک قبر پر ’’دائی لاڈو کی قبر‘‘ کے نام کی تختی مُزین ہے۔لیکن تاریخی حقائق اور مُستند کتب میں درج حوالہ جات کے مطابق مسجدکے صحن میں ہی دایہ لاڈو اور سائیں مہر شاہ کی قبور تھیں جن کو مسجد کی از سرِ نو تعمیر کے دوران میں صحن کے فرش کے ساتھ برابر کر دیا گیا۔عین ممکن ہے کہ لیڈی ایچسن ہسپتال میں موجود وہ قبر بھی کسی قابلِ عزت شخصیت کی ہو لیکن وہ دایہ لاڈو کی قبر نہیں ہے۔اس سلسلے میں ایک دلیل نقوش لاہور نمبر (صفحہ 561) پر اس طرح دکھائی دیتی ہے۔’’جب انگریزی دور شروع ہوا تو سائیں مہر شاہ قادری نے لاہور کے چند مسلمانوں کو ساتھ ملا کر زبردستی اس ہندو جوگی کو بے دخل کر دیا۔ مسجد پھر آباد ہو گئی اور گرد و نواح کی کوٹھیوں کے مسلمان وہاں نماز پڑھنے لگے۔ جب تک سائیں مہر شاہ زندہ رہا اس مسجد کے ایک کوٹھے میں مقیم رہ کر اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس کے بعد یہ انجمن اسلامیہ کی تولیت میں چلی گئی اور اب اوقات کمیٹی کے انتظام میں ہے۔ یہ مسجد پختہ چونے کی عمارت ہے اور نہایت مضبوط بنی ہوئی ہے۔ تین محرابیں اور گبند عالی شان۔ سقف قالبوتی ہے۔ صحن وسیع ہے۔ کنواں اور حوض پُر کر دیا گیا ہے۔ صحن کے شرق کی طرف دایہ لاڈو کی قبر تھی۔ سائیں مہر شاہ کی قبر بھی تھی جو فرش کے ساتھ ہموار کر دی گئی۔
ملحق مدرسہ
ترمیم‘‘دائی لاڈو نے اپنی زندگی میں مسجد کے ساتھ ساتھ ایک مدرسے کی بنیاد بھی رکھی۔مسجد مدرسہ اور اُن کے قائم کردہ محلے کے دیگر احوال کا ذکر بڑی ہی تفصیل کے ساتھ نقوش لاہور نمبر (صفحہ 493) پر یوں ملتا ہے۔"دائی لاڈو جو شاہجہان کی دایہ تھی، بہت مال دار اور پرہیز گار خاتون تھی۔ وہ شیخ سلیم چشتی کی مریدہ تھی اور فریضہ حج بھی ادا کر چکی تھیں۔ اس کے محلات لاہور کے محلہ زین خاں میں تھے۔ یہ محلہ ’’گذر تلہ‘‘ بھی کہلاتا تھا۔ شاہجہان کے زمانے میں یہ ’’محلہ دائی لاڈو‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ جہاں پہلے رتن باغ تھا اور اب ’ون یونٹ ہسپتال بن گیا ہے، بھارت بلڈنگ، مہاں سنگھ کا باغ، نسبت روڈ اور گاندھی پارک واقع ہیں، وہیں یہ محلہ آباد تھا۔ دایہ مذکور نے 1631ء میں وہاں اپنی وہاں مسجد بنوائی جو اب تک موجود ہے۔ مسجد میں دائی لاڈو اور اس کے خاوند کی قبریں بھی ہیں۔"دائی لاڈو نے اس مسجد کے ساتھ ایک بہت بڑا مدرسہ تعمیر کرایا اور اپنی جائداد کا بہت سا حصہ اس مسجد اور مدرسے کے اخراجات کے لیے وقف کیا۔مدرسے کے پہلے شیخ (سربراہ) مولانا عصمت اللہ تھے۔ مولانا کی شہرت دور دور تک تھی۔ وہ بے حد پرہیز گار اور متقی تھے۔ معقولات اور منقولات میں اپنی نظیر رکھتے تھے۔ مولا کی کشش ہر طرف سے طلبہ کو وہاں کھینچ لائی اور تھوڑے ہی دنوں میں مدرسہ ایک زبردست تعلیمی مرکز بن گیا۔یہ مدرسہ نواب زکریا خاں کے زمانے تک قائم رہا۔ جب سکھ لاہور پر قابض ہوئے تو انھوں نے دیگر علمی اداروں کے ساتھ اسے بھی تباہ کر دیا۔
موجودہ صورت حال
ترمیممدرسے کی عمارت اور حویلیاں ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈر بن گئیں۔ 1856ء میں جب رتن چند ڈاڑھی والا نے اپنا رتن باغ اور حویلی تعمیر کی تو یہیں کی عمارتوں کو کھدوا کر اینٹیں حاصل کیں۔ مسجد کے ایک طرف مہاں سنگھ کا باغ ہے۔ ایسا معلوم ہے کہ جب یہ علاقہ اجڑا تو عیسائیوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور وہاں اپنے ادارے قائم کیے۔وہ جگہ بھی دائی لاڈو کی ملکیت تھی جس جگہ آج کل میڈیکل کالج کا تالاب، گراؤنڈ اور ہوسٹل ہیں۔ وہاں کبھی بلند و بالا عمارتیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ جب تالاب کھد رہا تھا تو اس کے نیچے سے پختہ اینٹوں کی بنیادیں نکلی تھیں۔‘‘ماضی قریب میں مسجد کے کھلے اور کچے فرش کو سنگِ مر مر سے نیا کر دیا گیا ہے۔ اس کے اوپر کی دوسری منزل بھی تعمیر کی گئی ہے۔ قدیمی عمارت ہال میں کئی دیواروں اور فرش پر کبھی قدیم نقش و نگار ہوا کرتے تھے انکا اب کوئی وجود باقی نہیں ۔ مسجد کے عظیم الشان گنبد اور اس کے قدیمی نام کے علاوہ مسجد کی کوئی بھی پرانی چیز دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یوں کہنا چاہیے کہ مسجد کا بیرونی حصہ تو نہیں بدلا لیکن اندرونی حصے کو مکمل طور پر بدل دیا گیا ہے [1]