دار الندوہ اہل مکہ کا پنچائت گھر چوپال پارلیمنٹ تھا جس میں قوم کے مفکرین اور دانشور اجلاس کرتے یہ جگہ پہلے مسجد حرام سے باہر تھی مگر اب مسجد حرام میں شامل ہو گئی ہے حکیم بن حزام نے دار الندوہ فروخت کر دیا تھا[1]
ہجرت مدینہ کے وقت رؤسائے مکہ نے اپنے پارلیمنٹ ہاؤس " دار الندوہ " میں باقاعدہ میٹنگ کر کے اپنے اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب کا فیصلہ کیا، جیسا کہ سورة اَنفال میں ذکر فرمایا گیا ہے { وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوکَ اَوْ یُخِْرجُوْکَ } الآیۃ (الانفال : 30) ۔ اور " دارالندوہ " کی اس سازش و قرارداد میں مشرکین مکہ نے اگرچہ ان تین باتوں ہی کے بارے میں غور کیا تھا یعنی قتل، قید اور اخراج، مگر واقع میں چونکہ ان تینوں میں سے ایک ہی صورت ظہور پزیر ہوئی تھی اس لیے یہاں اسی ایک کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یعنی اخراج و جلاوطنی۔ [2]
ابلیس لعین بھی اس مشورہ میں شامل ہوا اور مقامی لوگوں کے لیے وہ ناشناسا اور اجنبی تھا۔ ان کے دریافت کرنے پر اس نے بتلایا کہ میں نجد کے علاقہ کا ایک بزرگ اور جہاندیدہ شخص ہوں۔ میں نے چاہا کہ میں بھی اس اہم مشورہ میں شامل ہوجاؤں۔ لوگوں نے کہا بہت اچھا۔ جب مشورہ شروع ہوا تو ایک شخص نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) قید کر لیا جائے۔ یہاں تک کہ دوسرے شعرا کی طرح ان کا قصہ تمام ہوجائے اس پر شیخ نجدی نے مخالفت کی
تمام سرداران قریش قصی بن کلاب کے قائم کردہ گورنمنٹ ہاؤس ” دار الندوہ “ میں جمع ہوئے اور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل سے متعلق سازشی مجلس مشاورت قائم کی اس مجلس میں عتبہ ‘ شیبہ ‘ ابوسفیان ‘ طعیمہ بن عدی ‘ جبیر بن مطعم ‘ حارث بن عامر ‘ نضربن حارث ‘ ابوالبختری ‘ زمعہ بن اسود ‘ حکیم بن حزام ‘ ابوجہل ‘ نبیہ بن الحجاج ‘ منبہ بن الحجاج ‘ امیہ بن خلف جیسے صنادید قریش شریک مشورہ تھے۔ مشورہ شروع ہونے والا ہی تھا کہ ایک شیطان شیخ نجدی دار الندوہ کے دروازہ پر آموجود ہوا اور شرکت مجلس کا خواستگار بنا ‘ قریش مکہ نے ہم مشرب پا کر بخوشی اجازت دی اور مشورہ کیا [3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر گلدستہ تفسیر ۔ مرتب محمد اسحاق
  2. تفسیر مدنی کبیر مولانا اسحاق مدنی
  3. تفسیر مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی