شہر کڈپہ، آندھرا پردیش کے ایک اہم اور معتبر شاعر داؤد نشاط کی پیدائش 1929ء میں ہوئی۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’’عالم نشاط‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد محمود شاہد اور سعید نظر کے توسط سے منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف ایک خوش گلو اور خوش فکر شاعر تھے اپنے لحن داؤدی سے شعری و ادبی محفلوں میں ایک سماں باندھتے تھے۔ موصوف نے شاعری کے فنی لوازمات کو سمجھنے اور برتنے کے لیے مشہور و معروف اساتذہ سخن حضرت ابر حسن گنوری اور طرفہ قریشی کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔

شاعری کا تجزیہ ترمیم

داود نشاط کی پیدا ئش 1929 ؁ء میں ہوئی۔ حضرت ابر حسن گنوری اور طرفہ قریشی جیسے اساتذۂ فن سے اکتساب سخن کا زرین موقع عطا ہوا۔ کڈپہ کی ادبی محفلوں میں داؤد نشاط کا ایک ادبی مقام ہے۔ انھوں نے اپنے خون جگر سے فکر و فن کے چراغ کو جلانے اور فکری رجحان عطا کرنے کی ممکن حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ وہ ادب برائے ادب نہیں ادب برائے زندگی کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ: خون دل سے فکر و فن کی جب بھی جلتے ہیں چراغ تب کہیں ڈھلتا ہے جاکر شعر اک تاثیر کا غم کی کائنات سے یوں تو ہر شاعر کا گذر ہوتا ہے۔ اکثر شعرا نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے لیکن چند شعرا ایسے ہیں جو مایوسی اور لا یعنیت کے شکار ہو چکے ہیں۔ لیکن داؤد نشاطؔ کے غم میں نشاطِ نغمگی پائی گئی ہے اور غم سے حوصلوں کو بلند کرنے کے تدابیر پائے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ دل، دل نہیں جو غم کا کوئی گوشہ دیکھا نہ ہو۔ بقول پروفیسر سلیمان اطہر جاوید: ’’ داؤد نشاط غم سے بیزار نہیں ہوتے غم تو ان کے لیے وجہہ نشاط ہے، حاصلِ حیات ہے، جان کائنات ہے، معراجِ بشر ہے کہ وہ غم کے ماتھے پر شکن بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ انھیں وہ زیست پسند نہیں جس میں غم نہ ہو‘‘۔

فکرِ سخن کے واسطے غم چاہیے نشاطؔ

جب تک کہ دل میں درد نہ ہو شاعری نہ ہو

غم حاصل حیات ہے غم جان کائنات

وہ دل ہی کیا نشاطؔ جسے غم ملا نہیں

داؤد نشاطؔ ایک خوددار طبعیت کے مالک ہیں ان کی خود دار طبعیت کا تقاضا ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:

میری خوددار طبعیت کا تقاضا ہے یہی

آشیاں پھونک دیا برق و شرر سے پہلے

داؤد نشاط کبھی اپنے وجود کے احساس پر رشک کرتے ہیں تو کبھی اپنے وجود کی تلاش و جستجو کرتے ہیں، کبھی مایوس ہوجاتے ہیں تو کبھی شیرازۂ وجود کو منتشر پاتے ہیں۔ چند متفرق اشعار ملاحظہ کیجئے:

مرا وجود سمندر نہیں میں قطرہ ہوں

ہر ایک موج کی آغوش میں مچلتا ہوں

وہ کون ہے جو مرا ہمسف رہے برسوں سے

نہ اس کا جسم نہ اس کا چہرہ دکھائی دیتا ہے

یہ کس مقام پر لائی ہے جستجو تیری

نہ کوئی موڑ نہ کوئی رستہ دکھائی دیتا ہے

شاید ہی منتشر ہے ابھی شیرازۂ وجود

کیوں ورنہ آدمی سے گریزاں حیات ہے

کوئی شاعر زندگی سے مایوس ہوکر دنیا سے پناہ مانگتا ہے تو کوئی شاعر دنیا سے مایوں ہوکر زندگی سے پناہ مانگتا ہے لیکن داؤد نشاط زندگی سے گھبراکر مرنے کے بعد آنے والی زندگی سے پناہ مانگتے ہیں۔ شعر کے دوسرے مصرعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شاعر ایمان کے دائرے سے ہٹ رہا ہے: گھبرا گیا ہوں زیست کی تلخی سے اس قدر اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہ ہو تعلّی ہر شاعر کی فطرت ہے مگر اسی فطری رجحان کو داؤد نشاط کچھ الگ انداز میں ظاہر کرتے ہیں:

میں مشتِ خاک ہوں مگر گرد و غبار جیسا ہوں

تمام وسعتِ عالم پہ پھر بھی چھایا ہوں

تیرا ہر اک لفظ تہذیب وفا ہے اے نشاطؔ

اس لیے ہے دہر میں چرچہ تری توقیر کا

داؤد نشاط کے انتقال کے ایک سال بعد سنہ1993 ؁ء میں محمود شاہد اورسعید نظر کی کدو کاوش سے ان کا شعری مجموعہ ’’عالم نشاط‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آکر اربابِ سخن سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ یوں تو ’’عالمِ نشاط‘‘ کے چند شعر نظر ثانی کے متقاضی ہیں اگر داؤد نشاط اسے ترتیب دیتے تو فن کی باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اشعار میں نکھار پیدا کرکے منظرِ عام پر لا سکتے تھے۔ شاعر کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے۔ اسی لیے شاعری سے ہم اس دور کے تہذیب و ادب اور اس عہد کے تقاضوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ داؤد نشاط کہتے ہیں کہ:

اڑائیے نہ ہواؤں میں میری باتوں کو

صدائے وقت ہوں میں وقت کا تقاضا ہوں

بہر کیف داؤد نشاط کا مجموعہ کلام ’’نشاطِ عالم‘‘ میں اپنے عہد کی آواز ہے، اس لیے یہ قابل داد و تحسین ہے۔

حوالہ جات ترمیم

[1]

  1. یہ مضمون امام قاسم ساقی کے ایم۔ فل کے مقالہ صفہ 63 اور ان کا تیسرا مجموعہ ‘تاسیس ‘ صفہ 126 تا 129 سے لیا گیا ہے