ابتدائی سون صنعت کا زمانہ ختم ہوتے ہوتے یعنی آج سے دو لاکھ سال قبل تک پتھر سے اوزار سازی میں کافی ترقی ٹیکنکی ترقی ہو چکی ہے۔ ان ترقی یافتہ اوزاروں کی دو قسمیں پائی اجتی ہیں۔ ایک میں تو سنگ ریزوں سے بنائے گئے اوزار نمائیاں طور پر موجود ہیں۔ لیکن دوسری صنعت میں سنگریزوں کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ نیا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ پہلے ایک بڑے پتھر کو تراش کرکے مطلوبہ شکل میں لایا جاتا۔ اس کے بعد اس کی ایک جانب چھلکا اتار کر تیز دھار نکالی جاتی۔ ایسا ہی طریقہ لگ بھگ اسی زمانے میں افریقہ، فلسطین اور مغربی یورپ میں مروج تھا ۔

مجموعی طور پر سون صنعت چھلکا اوزاروں پر مشتمل ہے۔ ان چھلکا اوزاروں کو بنانے کے کئی طریقے رہے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پتھر کو کسی دوسرے بڑے پتھر پر مارا گیا۔ اس سے بہت سارے ٹکڑے حاصل ہوئے۔ ان سب ٹکڑوں کو حسب منشا تراش لیا گیا۔ دوسرا طریقہ یہ رہا ہے کہ کسی سنگریزے کو تراش خراش کرکے اسی ایک جانب کو گینڈے یا کچھوے کی پشت کی طرح قوس کی شکل دیا گیا۔ اس کے بعد نچلی یا یوں کہیے وہ سطح جسے ہموار بنانا ہے۔ اس پر ایک ضرب لگا کر اس کو ٹوڑا گیا، اس کے ایک حصہ کو چھوڑ کر باقی تیز دھار کنارہ چھوڑ گیا۔ پشت والی جانب جو قدرتی طور پر میسر نہیں آئی بلکہ خود بنائی گئی ہے۔ دستہ کے طور پر کام آنے والی ہے ۔

اس طریقہ سے بنائے گئے اوزاروں میں تین چیزیں کثرت سے ملی ہیں۔ ایک چھلینے والا اوزار ہے۔ جسے چاقو کہنا چاہیے۔ تیسرا نیزے کی انی ہے۔ مگر ان تینوں اوزاروں کو تراشنے کے بعد اس پر محنت نہیں کی گئی ہے۔ یعنی ڑگرائی گھسائی نہیں کی گئی ہے ۔

ان ہتھیاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس انسان کے طرز زندگی میں کچھ تبدیلیاں ضرور آ رہی ہیں۔ ایک تو وہ لکڑی کو چھیلنے، چمڑے کو جانور کو ذبح کرکے اس کے جسم سے الگ کرنے اور گوشت کو باریک حصوں میں کاٹنے کے اہل ہو چکا ہے۔ دوسرا وہ نیزہ بنا چکا ہے۔ جس کا مظلب ہے شکار پر اس کی دسترس ہو چکی ہے۔ یعنی تیز رفتار جانوروں پر فتح پانا ممکن ہو چکا ہے ۔

درمیانی سون صنعت چونکہ جنوبی افریقا، فلطین اور یورپ کی ہم عصر صنعتوں سے ملتی جلتی تھی۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر جہاں جہاں بھی شواہد ملے ہیں انسان کی مادی زندگی کا ارتقائ تقریباً ایک سطح پر ہوریا تھا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ زندگی شکار اور خوراک جمع کرنے سے عبادت تھا ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور